اس میں کچھ شک نہیں کہ بیرونی سازش ہوئی ہے۔ ہوئی ہے نہیں بلکہ ہو رہی ہے اور مسلسل جاری و ساری ہے۔ 2005ء میں امریکن نیشنل اینٹیلجنس کونسل اور سی آئی اے نے مشترکہ رپورٹ میں ایک پیشگوئی کے ذریعے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان 2015ء تک ناکام ریاست بن جاۓ گا(و مکروا و مکر اللہ) اور اس میں مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ سول وار اور سیاسی انتشار کا بڑا حصہ ہوگا جس سے فوج اور ادارے عضو معطل بن جائیں گے اور ایٹمی اثاثے خطرے میں ہوں گے، لہذا ایٹمی خطرے سے دنیا کو بچانے کے لیے بین الاقوامی مداخلت ضروری ہو جاۓ گی ۔ بعد ازاں پاکستان کے ناکام ہونے کی ڈیڈ لائنز تو تبدیل ہوتی رہیں اور پھر خاکم بدہن 2022 ء. 2023ء تک پاکستان کی مکمل ناکامی کی بازگشت سنائی جاتی رہی . تاریخیں تبدیل ہوتی رہیں تاہم ان بڑی طاقتوں کا طریقہ واردات وہی رہا .
طریقہ واردات کیا ہوتا ہے ؟
اس سازش کے طریقہ کو سمجھنے کے لیے مشرق وسطی کی تباہی کو ذہن میں رکھیے اور عرب بہار کے خوش کن نعرے کو یاد کیجیے کہ جس کی لہر نے پورے عرب کو خزاں کی طرح کملا دیا اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ اس سازشی پلان کا بنیادی مقصد تمام قابل ذکر مسلم ممالک کو اندرونی انتشار کا شکار کرکے طفیلی ریاستیں بنا نا ہے جو کسی بھی درجے میں صیہونی ریاست کے لے خطرہ ہیں. اس سازش کا بنیادی طریقہ واردات یہی ہے کہ آرگینک طریقے سے معاشرے کے ہر گروہ کو ایک دوسرے سے برسر پیکار کردیاجائے.
آرگینک طریقے سے کیا مراد ہے؟
اس سے مراد یہ ہے کہ ہر گروہ کے اپنے اپنے نظرے یا نعرہ کو انتہا پر لے جایا جاۓ اور اسے سپورٹ فراہم کرکے اسے کم از کم اتنا طاقتور بنا دیا جاۓ کہ وہ پورے اخلاص سے کچھ نہ کچھ انتشار پیدا کرنے کے قابل ہو جاۓ اور اسے غیر محسوس طریقے سے ابھارا جاۓ یا مجبور کیا جاۓ کہ وہ پر تشدد ہو جاۓ۔یہ نظریہ یا نعرہ مذہبی بھی ہو سکتا ہے انقلابی بھی اور سیاسی یا معاشی بھی اور بیک وقت ان سب کا امتزاج بھی۔ یہ نعرے یقینا فطری اور پر کشش ہوتے ہیں اور ان نعروں کے پیچھے چلنے والے پر خلوص جانثار ہی ہوتے ہیں۔ ان کے اخلاص کو یقینی بنانے کے لیے مذہبی نعرے اور علامات اکثر نمایاں طریقے سے استعمال کی جاتی ہیں ۔
داعش کو یاد رکھیے کہ کیسے خلافت کے پرکشش اور مطلوب نعرے کو سی آئی اے نے دو مسلم ممالک کو تباہ کرنے کے لیے نہ صرف استعمال کیا بلکہ اس مقصد کے لیے اس جنگ میں اپنے بہت سے مسلم شہری بھی جھونک دیے جس سے انہیں دوہرا فائدہ ہوا۔ ان کے اپنے ممالک سے پوٹیشل رکھنے والے مسلمان نکل گئے اور ٹارگٹ ملک تباہ ہوۓ۔ بعد ازاں ہیلری کلنٹن نے بھی سرعام اعتراف کیا کہ د اعش امریکی پلان تھا.
غلطی کہاں ہوتی ہے ؟
مخلص لوگوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ ماحول ایسا بنادیا جاتا ہے کہ ان گروہوں میں نظریے کی یا نعرے کی جو جتنی سخت اور انتہا پسند تشریح کرتا ہے وہ اتنا ہی وفادار مانا جاتا ہے. داعش اور ا لقاعد ہ کے تکفیری رہنما یاد رکھیے، اسی طرح کمیونسٹ پارٹی کےانتہا پسند لکھاری بھی یاد رکھیں. (اس پر تفصیل اگلی مرتبہ ان شاءاللہ )۔ مزید غلطی یہ ہوتی ہے کہ اپنے نعرےجسے یہ بطور گروہ برحق سمجھ رہے ہوتے ہیں، کو حاصل کرنے کےلیے تمام دینی و معاشرتی قاعدے پورے اخلاص سے نہ صرف نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ انہیں توڑنا عین ثواب یا فخر سمجھتے ہیں۔ مثلا جھوٹ بولنا ، گالم گلوچ کرنا، جھوٹی ویڈیوز یا خبریں پھیلانا، مقدس مقامات کی بے ادبی کرنا (بے ادبی اور توہین میں فرق ملحوظ رہے) ، قومی یا مذہبی دنوں پر بھی متنازعہ سرگرمیوں کے ذریعے یکجہتی کے بجاۓ ہیجان پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ پھر قومی سلامتی و افتخار کے اداروں کو نشانہ پر رکھ کر ان کی بے توقیری کرنا اور پھر نفرت اس حد تک لے جانا کہ لوگ ان سے لڑنے بھڑنے کو ہی عین حق اور وفاداری سمجھ بیٹھتے ہیں۔
تو کیا اپنا نظریہ یا حق چھوڑ دیں ؟
بالکل نہیں، اپنا نظر یہ نہ چھوڑیں مگر ایک تو شخصیت پرستی کا شکار نہ ہوں بلکہ نظریے کو ہی فالو کریں. دوسرا عراق کے مایہ ناز کھلاڑی ایتھلیٹ الجبوری کو ذہن میں رکھیے کہ جو صدام کے مجسمے کو گرانے میں اور اس کے خلاف بغاوت کی تحریک میں پیش پیش تھا۔ اب یہ شخص (اور بہت سے عراقیوں کی طرح) آنسو بہاتا ہے کہ کاش صدام رہتا تو عراق کی یہ حالت نہ ہوتی. (یاد رہے الجبوری کے خاندان کے کئی افراد صدام دور میں حکومت کے ہاتھوں قتل ہوۓ)۔ اب الجبوری کو لگتا ہے کہ صدام یقینا ظالم تھا مگر عراق عراق تو تھا، معاشرہ اور ملک قائم تو تھا، اب تو نہ کوئی نظریہ باقی بچا نہ کسی کی عزت اور حقوق محفوظ رہے ۔
تو حل کیا ہے ؟
حل سادہ مگر بہت مشکل ہے کیونکہ خود سوشل میڈیا کا مزاج ایسا ہے کہ یہ تنازعہ کو بڑھاتا ہے ۔بہر حال حل یہی ہے کہ انتشار سے گریز کیا جاۓ ۔ کسی بھی ایسے بیانیہ کو قبول کرنے سے انکار کیا جاۓ جس کے نتیجے میں صرف کوئی خاص لیڈر، نسل، قوم یا گروہ ہی محب وطن ہو اور باقی سب غدار ہوں۔ قومی سلامتی کے اداروں کو غیر متنازعہ رکھا جاۓ، البتہ پالیسیز پر صحت مند تنقید کا ماحول پیدا کیا جاۓاور اداروں سمیت سب جماعتوں سے آئین اور قانون پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد اور اس کی پابندی کا مطالبہ کیا جائے۔ اسی طرح نہ صرف مخالفین سے بلکہ اپنے اپنے پسندیدہ لیڈر سے اعلی سیاسی و سماجی اخلاقیات کی پیروی کا مطالبہ کیا جاۓ۔ افواہوں سے گریز کیا جاۓ اور مباحثہ جب گرم ہونے لگے تو اسے مسکراہٹ کے ساتھ چھوڑ دیا جاۓ۔
یقین رکھیے! آپ کے خلاف اصل سازش ”انتشار “ ہی ہے۔ اسی سے برصغیر کی عظیم مسلم حکومت ختم ہوئی، اسی انتشار اور تفرقہ سے سلطنت عثمانیہ زمیں بوس ہوئی۔ اسی تفریق و تشدد کی سیاست سے عراق، لیبیا ،شام لبنان، تباہ و برباد ہوئے اور آج ناجائز صیہونی ریاست کے مقابل صرف ایک ہی مسلم ملک کی طاقت بچی ہے جو خوش قسمتی سے ایٹمی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اس ایٹمی طاقت کو باہمی انتشار کے بارود سے آگ مت لگائیں وگرنہ سب بھسم ہوجائیں گے۔
تبصرہ لکھیے