میری رائے میں لکھاری کو قاری کی رائے سے ماورا ہوکر لکھنا چاہیے۔ کیونکہ قاری کی رائے اس کی دیانتداری کو متاثر کرسکتی ہے۔ یہ موضوع اگرچہ پہلے سے ہی کافی زیادہ لے دے کے ساتھ تنقیدی ادب اور لسانیات کا حصہ ہے، لیکن یہاں اس کا تذکرہ سوشل میڈیا کے لکھاریوں کے تناظر میں مقصود ہے۔
میں نے فیس بک پر آنے سے پہلے پہلے تک بیس کتابیں لکھ کر شائع کروا لی تھیں۔ اس زمانے میں اپنی تصنیفات پر کسی کی رائے سننے کا موقع خال خال ہی ملتا تھا۔ کوئی کالم نگار کسی اخبار میں کتاب پر کالم لکھ دیتا یا کوئی بہت ہی شوقین قاری پبلشر سے نمبر مانگ کر کال کرتا یا ملنے چلا آتا۔ پھر یوں ہوا کہ فیس بک آگئی۔ یہ غالباً دوہزار آٹھ کی بات ہے۔ پھر جو فیس بک پر لکھنا شروع کیا تو ہر پوسٹ کے کمنٹس میں قارئین کی آرأ بھی اسی وقت بلکہ ہندی میں کہوں تو ’’تُرَنت‘‘ دستیاب ہونا شروع ہوگئیں۔ پہلے پہلے یہ بات بہت اچھی لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے آپ کو آپ کی تخلیق پر انعام سا مل رہا ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ آپ کو مزید سیکھنے کا موقع مل رہاہے۔ کمنٹس میں لوگ آپ کی اصلاح کرتے ہیں، آپ کو مشورے دیتے ہیں۔ کوئی نئی بات بتادیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس لیے کئی سال تک یہی لگتا رہا کہ لکھاری کے لیے یہ اچھی بات ہے۔
لیکن آج سوچتاہوں تو حیرت ہی حیرت سے دوچار ہونا پڑتاہے۔ بڑے بڑے لکھاریوں کو دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان سے لبرل اور لبرل سے متشدد ملحد ہوتے دیکھا اور بڑے بڑے موحدوں کو مولا علیؓ مولا علیؓ کے نعرے لگاتے سنا۔ اور وجہ صرف یہی ہے کہ ان کے قارئین نے ان کے رُخ بدل دیے۔ میں نے سدرہ کو فعّال مذہبی مبلغہ سے ٹی وی کی ڈرامہ سیریل لکھنے والی مصنفہ بنتے دیکھا۔ میں نے رعایت اللہ فاروقی کی کایا کلپ ہوتے دیکھی۔ میں نے حافظ صفوان کو اتنی لمبی داڑھی سے چھوٹی چھوٹی خشخشی داڑھی والے حلیے میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ میں نے واثق شاہ کو نرم خُو سے سخت خُو ہوتے دیکھا۔ میں نے عزیز فیصل کو فکاہیہ شاعر بنتے دیکھا۔ فرحانہ صادق کو میدانِ تخلیق میں پسپا ہوتے دیکھا۔ میں نے حمید نیازی کو ایک البیلے کھلنڈرے لکھاری سے خشک رُو کمنٹیٹر بنتے دیکھا۔ میں نے صدیق محمد کو ایک صوفی کردار سے ایک منطقی کردار میں تبدیل ہوتے دیکھا (اگرچہ وہ باقاعدہ لکھاری نہیں ہیں)۔ الغرض اگر میں صرف حافظے کے زور پر ہی ناموں کی فہرست بناؤں تو طویل سے طویل ہوتی چلی جائےگی۔
مدعا صرف یہ ہے کہ اگر آپ کا قاری آپ کو ’’شیپ (shape)‘‘ کررہاہے تو پھر آپ فنکار تو ہیں لیکن لکھاری نہیں ہیں۔ ایک لکھاری ’’آرأ‘‘ سے ماورا ہوتاہے۔ اس کا مطالعہ آزادانہ ہوتاہے۔ اس کی جانبداریت فقط اپنے افکار و نظریات کے ساتھ ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی لکھنے والا، قارئین کے کمنٹس پڑھ پڑھ کر اُٹھتے بیٹھتے یہ سوچنے لگ جائے کہ اِس بار یہ لکھا تو فلاں فلاں نے یہ یہ کہا، چنانچہ اگلی بار ایسا نہیں لکھنا۔ کچھ ایسا لکھناہے کہ سب کو پسند آئے۔ یا یہ سوچ بھی ہوسکتی ہے کہ سب کو ہی ناپسند آئے۔
کوئی تخلیق لکھاری کی تخلیق ہوتی ہے یا اس کے قارئین کی؟ یہ فیصلہ کرنا اس وقت مشکل ہوجاتاہے جب آپ سادہ سے تجریدی کی طرف ترقی کررہے ہوں۔ مختلف قارئین کی رضامندی یا مخالفت حاصل کرنے کے لیے آپ کو دھیرے دھیرے تجرید کی طرف مائل ہونا پڑتاہے۔ یہاں تک کہ آپ کی تحریر کا تخلیق کار صرف آپ کا قاری ہی رہ جاتاہے۔
اس عنوان پر تنقیدی ادب اور لسانیات میں بے پناہ مواد موجود ہے۔ بطور ِ خاص ساختیات سے مابعد جدیدیت کا سفر اسی ایک موضوع کے گرد گھومتا رہتاہے کہ اصل تخلیق کار کون ہے؟ قاری یا لکھاری؟ الغرض ’’مصنف کی موت‘‘ جیسی عظیم اور مشہور کتاب اسی مخمصے کو حل کرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔
تصریحاتِ بالا سے میرا مدعا فقط اتنا ہے کہ اگر آپ لکھاری ہیں تو پھر لکھ کر پوسٹ کردیا کریں اور نیچے دیے گئے کمنٹس نہ پڑھا کریں۔ ان سے آپ کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ میں کہہ تو رہاہوں لیکن ایسا کرے گا کون؟ ناممکن سے زیادہ مشکل کام ہے یہ، جو میں خود بھی نہیں کرسکتا۔ البتہ ایک عادت بناتا جارہاہوں کہ کسی نہ کسی طرح کوششِ بسیار کے ذریعے خود پر اثرانداز ہونے والے کمنٹس کی تاثیر کو کم سے کم اثرانداز ہونے دیا جائے۔ 🙂
تبصرہ لکھیے