ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی شامیں مختلف طریقوں سے مناتے ہیں. مجھے بھی اسی بیتے رمضان کی ایک شام کی روداد سنانی ہے.
گھریلو طور پر بہت ہی فراغت تھی, من چاہتا تھا کہ ادبی دوستوں کی کوئی محفل ہو جہاں حاضر ہوا جائے. جانے یہ ذہنی پیغام خطیب احمد کے قلب صمیم تک کیسے پہنچا, خطیب صاحب جو خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے معروف بھی ہیں اور مختلف کالمز کے ذریعے اس بارے روشنی پھیلاتے رہتے ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ خدمت ان کی گھٹی میں ہے. تیس پینتیس برس کا سمارٹ سا نوجوان ہم درد بھی ہے ذہین بھی. اپنے معاشرے کے لیے اتنا کار آمد ہے بلکہ انسانیت کادرد اس کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے.
ایک دن ان باکس میں مخاطب ہوا. آپا آپ افطاری پر آسکتی ہیں اپنا وٹس اپ بھیجیں. میں نے کہا خطیب کیا کوئی اور خاتون بھی مدعو ہیں جواب میں پوری لسٹ مہمانوں کے ناموں کی تھما دی . ان میں اپنے جاننے والوں کے معتبر نام دیکھے تو اطمینان اور مسرت سے ملاقات ہو گی. خیر لوکیشن جاننا چاہی پتہ چلا کہ جوہر ٹاؤن میری والدہ کے ہمسایوں میں غزالی ٹرسٹ واقع ہے.
چلو معاملہ آسان ہوا ، سو روز مقررہ ہم خوب تیار شیار ہو کر دیے گئے وقت پر عمارت کے سامنے موجود تھے. آنے والوں میں پہلا نمبر ہمارا تھا. اس کا یہ فائدہ ہوا کہ خطیب صاحب سے مکمل تعارف اور بات کا موقع ملا.
خیر افطار سے پہلے مہمان کانفرنس حال میں پہنچ چکے تھے. علمی ادبی ماحول میں سب نے اپنا اپنا تعارف کروایا. اور غزالی ایجوکیشن کے کام پر ادارے کے سرپرست نے ایک زبردست ڈاکیومینٹری بھی دکھائی جسے دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ لوگ کتنا عظیم کام کر رہے ہیں اور وطن عزیز کے حالات اور بچوں کے چہرے کیا کیا کہانیاں سنا رہے ہیں محروم بچوں کا مستقبل کس طرح علم کی روشنی سے منور کر رہے ہیں. بے سہارا کمزور طبقات کے بچوں اور بچیوں کی پہلی ضرورت یعنی علم کو کیسے ان کے گھر کے قریب سکول بنا کر ان کے شوق کا راستہ آسان کر رہے ہیں. اپنی مٹی سے محبت کا قرض ادا کر رہے ہیں.
معلوم ہوا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ گزشتہ چھبیس برسوں سے پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں کو سو فیصد خواندہ بنانے کے لیے کوشاں ہے. دیہی علاقوں میں قائم ٹرسٹ کے چھ سو پچاس سے زائد سکولوں میں کم وسیلہ خاندانوں کے ایک لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں. پچاس ہزار کے قریب یتیم اور مستحق بچے یہاں سے علم حاصل کر رہے ہیں اور بارہ سو سے زیادہ سپیشل بچوں کی تعلیمی کفالت ٹرسٹ مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن بنا رہا ہے.
دیہی علاقوں میں بلا رنگ و نسل تعلیم سے محروم بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھا نے والا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ یقیناً ایک عظیم خدمت کر رہا ہے.
ایک انسانی زندگی کو روشنی عطا کرنا کتنا بڑا کام ہے کجا اتنے برسوں سےعلم کے دئیے سے دیا جلانا. یہ ادارہ سراہے جانے کے قابل ہے. مخیر حضرات ادارے کو عطیات دے کر اپنے ملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں.
افطاری میں حاضرین کو کھجوروں شربت روح افزا , سمارٹ سموسوں, اور دیگر اشیاء سے روزہ کھلوانے کا اہتمام کیا گیا تھا. کھانے میں مزے کا بھنا چکن , مزیدار روٹیاں یا نان اور ایک حلیم طرز کی گھٹی دال پیش کی گئی. پ
محترمہ فرح رضوی سے ان کا شاعرانہ کلام سنا گیا. محترمہ کنول بہزاد صاحبہ اور رقیہ چودھری صاحبہ سے خوب گپ شپ رہی ان کی صحبت میں ہم نے نماز مغرب ادا کی. اور ابن فاضل بھائی اور یاسر علی اور مہدی بخاری صاحب سے نپی تلی سلام دعا ہوئی, محمود فیاض صاحب سے بھی بات چیت کا شرف حاصل کیا. ایک اجتماعی تصویر اتروائی اور ایسے رمضان کے دنوں میں خطیب صاحب کے طفیل ایک ادبی علمی افطاری اپنے اختتام کو پہنچی.
ایک خوبصورت یادگار سماجی تقریب ہمارے حصے میں آئی, جس کی روداد سنانی مجھ پہ فرض بھی تھی قرض بھی. خدا ہم سب کو ایسی شامیں منانے کی توفیق دے ساتھ ساتھ عملی طور پر سماج کی خدمت کے مواقع میسر کرے اور ہمت عطا کرے کہ ہم بھی اسی زندگی میں اپنے لوگوں کے کسی کام آسکیں. اپنا وقت اپنا پیسہ اور اپنی توانائی تعمیری اور مثبت کاموں میں صرف کرنے کے منصوبے بناتے رہیں اور انفرادی طور پر کچھ ممکن نہ ہو تو ایسے اداروں کا ساتھ دیں جو پہلے سے بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں.
تبصرہ لکھیے