ہوم << فتح اللہ گلین صاحب کا انٹرنیٹ پر تعارف - مسعود فاروقی

فتح اللہ گلین صاحب کا انٹرنیٹ پر تعارف - مسعود فاروقی

مسعود فاروقی گزشتہ دنوں ترکی کے معاملے میں اکابرین کے کچھ کالم اور خود کلامیاں پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کے بعد دست بستہ اور بصد احترام اختلاف کرنے کی جسارت کیے بغیر رہا نہ گیا، سو دلیل پر اختلافی نوٹ پیش خدمت ہے.
فتح اللہ گُلن صاحب کی صوفیائے کرام سے فکری وابستگی سر آنکھوں پر لیکن صرف چند گھنٹوں کی برقیاتی جستجو کے بعد جو معلومات جمع ہوپائیں، وہ ہوشربا ہیں. مثال کے طور پر ان کی کلنٹن فاونڈیشن کے ساتھ قریبی تعلقات مغربی میڈیا میں حال ہی میں زیر بحث آئے. سابق صدر امریکہ بل کلنٹن اپنی اور اپنی اہلیہ کے ساتھ حذمت کی دوستی پر شکر گزار ہیں اور ان کی وڈیوحذمت نے خود اپنی ویب سائٹ پر لگا رکھی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے. ویڈیو کو یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے
http://hizmetnews.com/11982/bill-clinton-fethullah-gulens-contribution-world/#.V5SAQOh96M-
پھر اس پر مزید یہ کہ گُلن صاحب کی امریکہ میں داخلہ کی سفارش کرنے والے ایک سی آئی اے ایجنٹ تھے. گزشتہ تین دہائیوں سے ان کی تنظیم خفیہ طور پر ترکی اور دیگر ممالک میں اپنے افراد کو اہم سرکاری اداروں میں پلانٹ کر رہی ہے اور اس کی خاطر ذہن سازی کا آغاز اسکول ہی سے کر دیا جاتا ہے. اس غرض سے ترکی، امریکہ، پاکستان، انڈونیشیا کے علاوہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں اسکولوں کا نیٹ ورک قائم ہے جس کی مالیت کئی بلین ڈالرز ہے. انھی وجوہات کی بنیاد پر ٹائم میگزین نے تین برس قبل گلن صاحب کو دنیا کی 100 با اثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا. صرف امریکہ میں حذمت کے 160 سے زائد اسکول کام کر رہے ہیں جو امریکی حکومت سے سالانہ لاکھوں ڈالرز وصول کرتے ہیں. اس طرح حاصل ہونے والی رقم حذمت سے وابستہ افراد اور اداروں کو بزنس کانٹریکٹ کے نام پر لانڈر کی جاتی ہے. ہمارے ہاں کے الطاف حسین صاحب کی طرح گلن صاحب پر بھی منی لانڈرنگ کی انوسٹی گیشن چل رہی ہے. ایف بی آئی کی 2009 سے جاری انوسٹی گیشن کے باوجود حال ہی میں امریکی صدر اوبامہ نے اپنے دستخط شدہ باکسنگ دستانے فنڈ ریزنگ آکشن کے لیے حذمت کو عنایت کیے جن کی مدد سے حذمت نے ایک ہی رات مین ایک ملین ڈالرز جمع کیے۔ _72512020_gulenhousereut بی بی سی کی ویب سائٹ پر درویش صفت صوفی کے امریکی محل کی تصویر بھی ماشاءاللہ عیش نظارہ ہے۔
ذاتی طور پر اس طرح کے الزامات کو میں ثانوی حیثیت میں دیکھتا ہوں کہ بسا اوقات یہ کانسپریسی تھیوری ثابت ہوتے ہیں. مگر جو بات میرے لیے ناقابل معافی ہے، وہ حذمت کی زیر زمین اثرپذیری کی شعوری کوشش ہے. زیر زمین سازش چاہے اسلام کے نام پر ہو { اور پھر اسلاموں میں اسلام سبحان اللہ صوفی اسلام کے نام پر ہی کیوں نہ ہو } اپنی بنیادوں میں خطرناک ہوتی ہے. سب کچھ اچھا ہوتے ہوئے بھی ان تحاریک کے ہائی جیک ہونے کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے. یہ تحاریک اپنا نام القاعدہ رکھیں، تحریکِ طالبان پاکستان رکھیں چاہے حذمت رکھیں. پوری چین آف کمانڈ میں اگر ایک کڑی بھی خفیہ ہوگی تو وہی لے ڈوبے گی۔ حذمت نے ترک سوسائٹی کے ہر شعبہ میں خفیہ پلیسمنٹ کی، اور اب وہ ایک ملٹری بغاوت کا حصہ ہے. تزویراتی طور پر پلیس کیے گئے افراد کو اب نظر انداز کرنا کسی طور ممکن نہیں، چاہے ان افراد کا تعلق سوسائٹی کے کسی بھی شعبہ سے ہو. مثلاً جب پاکستان میں سیاسی جماعتیں اداروں میں سیاسی بھرتیاں کراتی ہیں تو کیا بھرتی ہونے والا ملازم اپنے پارٹی آقائوں کی حکم عدولی کر پاتا ہے؟ عام سیاسی کارکن کے برعکس ایک ایسی تحریک جو بچپن سے ذہن سازی کر رہی ہو، اپنے افراد پر کہیں گہرا اثرو رسوخ رکھتی ہے. ایک سازش کا حصہ بن کر حذمت نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے. چار روز قبل کے برعکس اب یہ خفیہ اور بااثر تحریک عالمی میڈیا کی اسکروٹنی کا شکار ہے. اردوان کے پاس اب حذمت کے معاملے میں کلی صفائی کے سوا کوئی راستہ نہیں.
ہمارے ہاں سیاسی اسلام کی اصطلاح گزشتہ کئی دہائیوں سے منفی مفہوم (نیگیٹو کانوٹیشن) کے ساتھ استعمال ہوتی رہی ہے، اس کے مقابلے میں صوفی اسلام سے بجا طور پر ہمارے خوشگوار احساسات وابستہ ہیں، اور اس پیرائے میں جب کوئی اردوان کو چلڈرن آ ف مودودی کہتا ہے اور مقابلتا گلن صاحب کو سعید نورسی اور پھر رومی سے جوڑ دیتا ہے تو بات اتنی سادہ نہیں رہ جاتی کہ نظر انداز کر دی جائے. خاص طور پر جب مودودی صاحب خود سلسلہَ چشتیہ کے ایک بزرگ کی اولاد ہیں. دوسری جانب خانقاہوں اور درگاہوں پر گدی نشین وہ لوگ جن کے آباء کو1857 کی تحریک آزادی کچلنے اور صلے میں انگریز سرکار سے اراضیاں پانے میں کچھ باک نہ ہوا، ایسے لوگوں کی اولاد آج بھی اپنی نسبت انھی صوفی بزرگوں سے جوڑتی ہے اور غریبوں کی عقیدت کے بدلے دنیا سمیٹتی ہے. کہنے کا مطلب یہ کہ گُلن کے معاملے میں الفاظ سے جڑی فطری خوشگواری سے آگے بڑھ کر مطالعہ کرنا ہوگا۔
پاکستان ہو یا ترکی میرے لیے افراد سے معاملہ کرنے کا ایک ہی معیار ہے، چاہے سامنے والا کہنے کو رائٹسٹ ہو یا لیفٹسٹ، چاہے اس کا اسلام سیاسی ہو یا غیرسیاسی، چاہے وہ مسلمان ہو یا دہریہ، اگر اپنے خیالات کا کھل کر پرچار کرتا ہے، مخاطب کو اپنے دلائل سے اپنا حامی بنانا چاہتا ہے، تیس سال لمبی سازش کی ڈوریاں نہیں بنتا، قانونی یا غیر قانونی طریقوں اور حیلوں بہانوں سے غیر ملکی ایجنسیوں سے پیسہ نہیں بناتا، اپنے ملک سے محبت کرتا ہے اور اس کا وفادار ہے، تو ایسا شخص اگر پاکستانی ہے تو میرا بھائی ہے، میرا دوست ہے، میرا ہم وطن ہے. چاہے اس سے کتنا ہی نظریاتی اختلاف رکھتا ہوں اس کے ساتھ ہونے والے ہر ناجائز کو روکوں گا، یہاں تک کہ اس کی خاطر اپنی جان سے بھی گزر جائوں گا. اور یہی اس بار ترکی میں ہوا. بغاوت کی رات اپنے ملک اور جمہوریت کی خاطر شہید ہونے والوں میں 14 کارکنان ترکی کی سیکولر پارٹی سی ایچ پی کے بھی ہیں
درج بالا معلومات کے ریفرنسز حسب ذیل ہیں۔
http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2016/04/turkey-fethullah-gulen-cleric-opposition-erdogan-akp.html
http://www.nytimes.com/2011/06/07/education/07charter.html?_r=0
https://www.washingtonpost.com/news/answer-sheet/wp/2016/07/16/fethullah-gulen-the-islamic-scholar-turkey-blames-for-failed-coup/
https://truthabouteducation.wordpress.com/2016/05/23/danger-gulen-charter-schools-and-the-fethullah-gulen-movement/

Comments

Click here to post a comment

  • "Miracles still happen" Erdoghan
    It is said that this 75 year old senile man called Fathullah Gulen, staying 5000 miles away from Turkey, was controlling a 350-soldiers-strong coup in Turkey . Not the Mossad, or CIA, or ISIS , or Russia or even the Turkish Kurds. is is claimed that Gulen was running a "parallel state" within the country, how come there was no support from even a handful of Turkish citizens or were they too scared of the mob hysteria to speak, fearing that they would be rounded up for treason ? Strangely, the rebels did not seem to even have a coup leader. A coup takes place in dark hours that too when the president is available for arrest at his palace. Certainly not when he was away holidaying in a resort. Stranger even is the coup fighter planes escorting the president to safety without firing at the official plane marked as The President's Plane. And instead of bombarding his palace, they bombarded the opposite building, the parliament housing even opposition leaders. Gulen was previously arrested and acquitted twice for alleged coups by Turkish courts in 70s and 80s. How would Gulen not have advised the rebels on such simple matters?
    The second Miracle is the urgent list of 20,000 men to be arrested, prepared by police within 42 hours of coup. List of judiciary , police, army and teaching staff in the universities and colleges accused to be sympathizers of coup. A lesson from Turkish police. to the police of other European nations.
    No doubt, Gulen despite his retirement is still a thorn in his back ,knowing how effective was his call from the USA in 2010 to vote in referendum for constitutional change. But he is sick now,almost a recluse and not a political rival . He should be accused only after investigations and punished if guilty instead of creating mob hysteria against any section of citizens. Erdoghan should remember Lenin's words," The best way to control the opposition is to lead it ourselves." .One cannot bring back the glory of Ottoman Empire by mere witch-hunting.