برادر دوست ملک چین کی آزادی کے وقت سے ہی پاک چین تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں ،اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی، اقتصادی لحاظ سے بلکہ دفاعی تعاون سمیت توانائی اور دیگر اہم شعبوں میں بھی ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ پاک چین لازوال دوستی کی بہترین عکاسی چین کی نیشنل نیوکلیئر کمپنی کے تعاون سے پیراڈائز پوائنٹ کراچی میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے کے تھری کا تاریخ ساز افتتاح ہو گا۔ افتتاحی تقریب میں چین اور پاکستان کی اعلیٰ شخصیات مدعو ہونگی۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ہونگے جبکہ بیجنگ میں چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے چیئرمین اور دوسرے قومی اداروں کے سربراہان تقریب میں اظہار خیال کرینگے ۔ کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ تھری کی افتتاحی تقریب کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی توانائی میں تعاون حو الانگ ون کی شکل میں دنیا دیکھے گی۔ یہ چین کے بعد دنیا بھر میں پہلا نیوکلیئر پاور پلانٹ ہوگا جس کی پیداواری صلاحیت 1100میگا واٹ یومیہ بجلی ہو گی۔ اسکے افتتاح کے بعد پاکستان میں ایٹمی بجلی قومی گرڈ میں 3500میگا واٹ سے زیادہ حاصل ہونے لگی ہے، کیونکہ کے تھری ایٹمی بجلی گھر کو آزمائشی بنیادوں پر نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا گیا ہے ، اور اسکے تمام ٹیسٹ اینڈ ٹرائلز مکمل ہو گئے ہیں۔ حوالانگ ون (کراچی تھری) کی تکمیل سے پاکستان میں سالانہ 10ارب کلو واٹ بجلی میسر آئیگی جو 40لاکھ سے زائد خاندانوں کو بجلی کی جملہ ضروریات فراہم کریگی۔ صرف کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ سے ماحول دوست قابل بھروسہ اور سستی بجلی جو حاصل ہو گی وہ 31لاکھ ٹن سالانہ کول سے بنائی جانے والی بجلی سے زیادہ ہو گی۔ اسکے نتیجے میں کوئلے سے اگر 1100میگا واٹ بجلی بنائی جائے تو ہر سال 81لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول میں پھیلے گی جبکہ کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ سے بنائی گئی بجلی سے 81لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا نہیں ہو گی، اور اس سے ماحول بھی خراب نہیں ہو گا۔
چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن نے قبل ازیں پچھلے سال مئی 2021ء میں کے ٹو مکمل کیا تھا، اور اب کے تھری مکمل کر لیا گیا ہے ۔ ان دو بڑے ایٹمی بجلی گھروں نے پاکستان کی معیشت سے متعلقہ انڈسٹریز کو تیز رفتار ترقی دینا شروع کر دی ہے ۔ اسکے نتیجے میں پاکستان میں ایکوپمنٹ کی لوکل سپلائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے مطابق کے تھری پراجیکٹ کی تعمیر جب زورو شور سے جاری تھی تو اس پر 10ہزار افراد کو روزگار حاصل تھا جبکہ بالواسطہ انڈسٹریل چین کے ذریعے 40ہزار پاکستانیوں کو اس عظیم پراجیکٹ سے روزگار ملا۔ کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ 1950ء کے عشرے میں کینیڈا کے تعاون سے بننے والے کینوپ KANUPP کے ساتھ بنایا گیا ہے جسے 2021ء میں پچاس سال کا آپریشن پورا ہونے پر شٹ ڈائون کیا گیا ہے ۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چشمہ کے مقام پر چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے تعاون سے بننے والے چار ایٹمی بجلی گھر ساڑھے 13سو میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں بلاتعطل پہنچا رہے ہیں جبکہ کے تھری اور کے ٹو 2200میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے لگے ہیں۔ اس طرح پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے بنائے گئے 6ایٹمی بجلی گھر 3550میگا واٹ بجلی انرجی باسکٹ میں پہنچا رہے ہیں جو ماحول دوست ، قابل اعتماد اور سستی بھی ہے ۔ کیونکہ سب سے زیادہ سستی بجلی تربیلا اور منگلا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی ہے مگر وہ ایٹمی بجلی گھروں کی طرح سارا سال مقررہ مقدار میں بجلی پیدا نہیں کر پاتے ۔ سردیوں میں جب گلیشیر پگھلنے بند ہو جاتے ہیں تو ان دونوں ہائیڈرو پاور پراجیکٹوں کی بجلی کی پیداوار ایک چوتھائی تک نیچے آ جاتی ہے ۔ اسی لئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے عظیم ہمسایہ ملک چین کے ساتھ ایٹمی توانائی کے پراجیکٹوں کا آغاز کیا اور چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن کے ساتھ نواز شریف دور میں 2017ء میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے چشمہ کے مقام پر پانچواں یونٹ حوالانگ ون کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اسی طرح کے تھری جس کا افتتاح چند روز بعد ہو گا وہ بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور میں مئی 2016ء میں بننا شروع ہوا تھا۔ حسن اتفاق ہے کہ اس کی تکمیل پر افتتاح بھی عیدالفطر کے بعد پر وزیراعظم شہباز شریف کریں گے ۔
چین کے تعاون کے پایہ تکمیل پہنچنے والے کے تھری ،کے ٹو اور چاروں چشنوپ سے قومی گرڈ کو کم و بیش 9فیصد بجلی مہیا ہونے لگی ہے جو کہ لوڈ شیڈنگ سے بھی پاک ہے اور پورے سال میں صرف 7دن کیلئے سالانہ مینٹی ننس، صفائی ستھرائی کیلئے یکے بعد دیگرے پانچوں ایٹمی بجلی گھر باری باری ایک ہفتے کیلئے بند کئے جاتے ہیں جبکہ اسکے برعکس ایل این جی، کول، ڈیزل، ونڈ پاور، شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے پراجیکٹ سال میں ایک ہفتے کی بجائے کئی کئی ہفتے حتیٰ کہ کئی کئی مہینے بھی بجلی پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ ان دنوں پاکستان میں سات سے زائد ڈیزل ، گیس، کول کے بجلی گھر پیداوار نہیں دے رہے جس سے کئی کئی گھنٹے یومیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کئی ہفتوں سے ہو رہی ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے تحت تیار کردہ کے تھری پاور پلانٹ کی پیدواری مدت 60 برس ہے ۔ مشکل معاشی صورتحال میں کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ تھری کی تکمیل بڑی خوش خبری ہے، جس سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ملک کے غیر فعال پاور پلانٹس کو قابل عمل بنانے کے لیے بھی عملی اقدامات کرنا چاہیے ۔ ملک میں بجلی کی قلت نہیں بلکہ کارخانے ایندھن نہ ہونے اور فنی خرابیوں کے باعث بند پڑے ہیں، 18بجلی گھروں کے بعض غیرفعال یونٹ فنی نقائص پر ایک سال سے بند ہیں جبکہ 7پاور پلانٹ ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ 18پاور پلانٹس میں بیلٹ ٹوٹنے ، تاریں خراب ہونے جیسے مسائل پائے گئے ، کئی پاور پلانٹ ایندھن نہ ملنے پربند ہیں۔سابقہ حکومت میں بروقت مرمت اور خراب ہو جانے والے پرزوں کی تبدیلی نہیں کی گئی، زیادہ ترخرابیاں انتظامی نوعیت کی اور کچھ کا تعلق پالیسی امور سے ہے ۔ 18 پاور پلانٹس میں پورٹ قاسم، گدو، مظفرگڑھ، کیپکو، جامشورو اور دیگر شامل ہیں جبکہ بندش کا شکار پاور پلانٹس 5ہزار 751میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ایندھن نہ ہونے سے بند پاور پلانٹس میں نندی پور اور ساہیوال کول جیسے سستی بجلی بنانے والے کارخانے شامل ہیں، 9پاور پلانٹ دسمبر 2021سے بلوں کی عدم ادائیگی اور ایندھن کے پیسے نہ ہونے پربند ہیں، یہ 9پاور پلانٹ 3ہزار 535میگاواٹ مجموعی بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فنی خرابیوں کے سبب بند 18کارخانے 3ہزار 605میگاواٹ مجموعی بجلی بناسکتے ہیں۔ فوری طور پر ان پاور پلانٹس کو قابل عمل بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکے۔
تبصرہ لکھیے