جمعہ21اپریل کو مجھےایک ایسی امریکی مسلم کانگریس وومن سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کے خون اور ہڈیوں میں خوف نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔بدحال ملک صومالیہ کے مہاجر کیمپوں میں بچپن گزار کرامریکی سر زمین پہ پہنچنے والی یہ لڑکی اپنے سینے میں درجنوں حیرت انگیز کہانیاں چھپائے ہوئے ہے۔ سیاہ فام نسل سے تعلق رکھنے والی منحنی سی یہ لڑکی سیاست کی پیچیدہ راہ داریوں سے گزرتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان میں، اپنے حجاب اور سکارف سمیت کیسے پہنچ گئی؟ اس کا تذکرہ میں کسی اور کالم میں کروں گا۔
فی الحال اتنا ہی کافی ہوگا کہ کانگریس میں اپنے سر کو سکارف سے اوڑھے جب الحان پہلی بار حلف لینے پہنچی تو ایک بھونچال کا سا سماں تھا۔ ایک تومسلم، دوسرے خاتون ،تیسرے سر کو سکارف سے ڈھانپے ہوئے۔
اسے سکارف اتارنے کی ترغیب/دھمکی دی گئی مگر اس نے انکار کردیا اوریہ زور دار انکار با لآخر رجسٹر ہوا اور اسے حلف لینے کی اجازت مل گئی۔
میں گزشتہ پانچ سال سے الحان عمر کی سیاسی جدوجہد کو دلچسپی سے پڑھ اور فالوکر رہا ہوں۔ امریکہ میں سفید نسل پرستی(خاص طور ٹرمپ کے دور میں) کے خلاف آواز اٹھانا، کشمیر و فلسطین پر جرآت مندانہ مؤقف دینا،اسلاموفوبیا کی لہر کا مقابلہ کرنا، اور کانگریس میں اس پر بل پاس کروانا اتنا غیر معمولی کام ہے کہ جس نے پوری مسلم دنیا میں اس کی عزت و توقیر میں بہت اضافہ کیا ۔ امریکہ میں بھارتی لابی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سفید نسل پرستی کے حامی اکثر اوقات الحان عمر کو”مسلم دہشت گرد” کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی پس منظر میں الحان کا پاکستان آنا،آزاد کشمیر میں پہنچ کر کشمیریوں کی حمایت میں کھڑے ہونا میرے نزدیک بہت اہم اور یاد گار واقعہ ہے۔
جب طاہر جاوید صاحب(پاکستانی نژاد امریکن بزنس مین اور سیاسی شخصیت) کی طرف سے الحان عمر کے ساتھ ڈنر کی دعوت ملی تو مجھے بہت اچھا لگا۔الحان امریکہ کی مسلم تنظیم ICNA کو بہت اچھی طرح جانتی اور اس کی قدردان تھی۔ جب اسے پتہ چلا کہ میں امریکہ میں قیام کے دوران ICNA کا سیکرٹری جنرل رہا ہوں اور اب پاکستان میں الخدمت کے کام کو منظم کررہا ہوں تو الحان نےبات چیت میں کافی دلچسپی لی۔
میں نے جب اسے الخدمت فاؤنڈیشن کے انٹرنیشنل پراجیکٹس ترکی، روہینگیا، فلسطین اور افغانستان کے بارے میں آگاہ کیا تو اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور پوچھا کیا الخدمت صومالیہ میں بھی کام کا آغاز کرسکتی ہے۔ میں نے اس امکان کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کا وعدہ کیا۔ الحان کے شوہر( جو اس دورے میں اُس کے ہمراہ تھے) نے ہمارے رابطہ نمبر لئے اور صومالیہ میں کام کے حوالے سے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس ملاقات میں الخدمت کے ذمہ داران شاہداقبال ، عامر محمود چیمہ ، احمد طور اور مرتضیٰ حسین بھی میرے ہمراہ موجود تھے۔
رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا "الحان آپ کی جرآت و دانش بھری داستان نوجوانوں کو امیدو ایقان کے بہت سے سبق دے سکتی ہے اگر آپ وقت دے پائیں تو ہم مستقبل میں پاکستان کی نئی نسل کے لئے کوئی بڑا پروگرام رکھ سکتے ہیں”۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیوں نہیں ،میرے دفتر سے کوآرڈینیٹ کرلیں مجھے ایک بار پھر پاکستان آکر خوشی ہوگی۔ الحان عمر جدوجہد اور غیرت و استقامت کا ایک غیر معمولی "استعارہ" ہے۔ مجھے خوشی ہے اس نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور پاکستانیوں کے بارے محبت بھرے جذبات لئے واپس لوٹ رہی ہے۔
تبصرہ لکھیے