قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ183 ) خالق کائنات اللہ عزوجل نے روزوں کی فرضیت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔
رمضان المبارک کے ’’عشرہ مغفرت ‘‘ کا آغاز ہورہا ہے ، جوکہ اپنے اندر پہلے سے زیادہ اجر و ثواب سموئے ہوئے ہے۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ جس میں نفل نماز کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نہ جانے آئندہ سال اس ماہ مبارک کے ایام ہمیں نصیب ہوں یانہ ہوں، ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس ماہ میںزیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ کر اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہورہے ہیں۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، اللہ ربّ ذوالجلال سے ہم کلام ہوتے ، زمان و مکان اورراز و نیاز کی باتیں ہوتیں ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خالق سے سوال کیا کہ اس وقت کائنات میں ، میں واحد بندہ ہوں جسے آپ سے بات کرنے کا شرف حاصل ہے۔
بتائیے یہ اعزاز کسی اور کو بھی نصیب ہو گا۔ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا، اے موسیٰ ! اس دنیا میں ایک ایسی بھی امت آنے والی ہے جب میرے اور ان بندوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہو گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے ، باری تعالیٰ ! وہ کیسے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یاد رکھ موسیٰ ! تیرے اور میرے درمیان کلام اور ملاقات کی صورت بے شمار پردے حائل ہیں جبکہ آمدہ امت کے ساتھ یہ معاملہ ہرگز نہیں ہو گا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام کی حیرت میں مزیداضافہ ہو گیا، انہوںنے عرض کیا ، کائنات کے مالک ! بتائیے وہ کون خوش نصیب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہ امت محمدی ہو گی، ان میں سے وہ لوگ جو ماہ رمضان کے ایام پا کر صرف میری رضا و خوشنودی کیلئے روزے رکھیں گے اورپھر وقت افطارنڈھال جسم ،خشک زبان اور منہ کی مہک کے ساتھ جو دعا مانگیں گے ، میںقبول کروں گا کیونکہ اس لمحے ان کے اور میرے درمیان کوئی پردہ ، کوئی فاصلہ نہ ہو گا‘‘۔
روزے دار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے ، اور میں ہی ( جس طرح چاہوں گا ) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے واسطے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ( پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا )۔ روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیںایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک الملک کی بارگاہ میں حاضری اور شرف ملاقات کے وقت، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ، یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے، اور روزہ دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچائو کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے۔ رمضان المبارک خیر وبرکت ، ہمدردی و اخوت کا مہینہ ہے، اس ماہ کی راتوں میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تین مرتبہ اعلان کیا جاتا ہے کہ کوئی ہے توبہ کرنے والا میں جس کی توبہ قبول کروں۔ کوئی ہے مانگنے والا مجھ سے تو میں اس کو دوں۔ کوئی ہے معافی مانگنے والا کہ اس کو معاف کردوں‘‘۔
اگر کوئی مسلمان عشرہ مغفرت میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادیے جاتے ہیں اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو۔ بلاشبہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ حق تعالیٰ شانہ تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے مہلت دی جاتی ہے کہ شاید اب بھی یہ معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے’’اے اللہ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔‘‘ زمین کہتی ہے’’اے اللہ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔‘‘ اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے’’اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔
اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو، میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی‘‘ ( مشکوٰۃ)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسری مظلوم کی ‘‘۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ’’باب الریان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے،جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘ ریان کے لغوی معنی ہیں ’’پورا پورا سیراب‘‘ یہ بھرپور سیرابی تو اس روزہ دار کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا۔
آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار نہیں جانے دینا چاہیے۔ ہم اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے معافی مانگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پاک و صاف پیش ہوسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے نفس کا تزکیہ کرکے تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین ۔
تبصرہ لکھیے