"کل رات کو مدیحہ کے ابو اچانک فوت ہو گئے ہیں۔"فاطمہ نے کلاس میں داخل ہوتے ساتھ سلام کے بعد یہ افسوسناک خبر سنائی۔"انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔" سب نے پریشانی سے کہا۔"کیسے؟ کیا وہ بیمار تھے؟" سی آر صالحہ نے پوچھا۔"نہیں ۔ وہ تو اچھے بھلے تندرست تھے اور بڑے بیٹے کی آج ہونے والی شادی اور بارات کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اچانک ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی اور کسی نے فون پر اپریل فول مناتے ہوئے ان سے جھوٹ بولا کہ"آپ کا بڑا بیٹا بازار سے واپس آتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیا ہے۔"
یہ خبر سن کر انہیں فوراً ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ وہیں گر گئے۔ جلدی سے ایمبولینس منگوائی گئی لیکن ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ایمبولینس میں ہی ان کی وفات ہوگئی۔" فاطمہ نے تفصیل بتائی۔"چچ چچ۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔""استغفر اللہ ۔ کسی کی جان گئی اور کسی کا مذاق ٹھہرا۔""اچھا بھلا خوشیوں والا گھر ماتم اور غم و الم میں ڈوب گیا۔""کتنا ظالم شخص تھا وہ جس نے اتنا خطرناک مذاق کیا کہ دوسرے کی جان ہی چلی گئی۔""ایک جھوٹ اور فضول مذاق کی وجہ سے ایک خاتون بیوہ اور کئی بچے یتیم ہو گئے۔" "ہائے اللہ! کتنا افسوس ہو رہا ہے کہ شادی کی خوشیاں فوتگی کے غم میں بدل گئیں۔"کلاس میں طالبات کے افسوس بھرے تبصرے جاری تھے۔
"اپریل فول" عرف عام میں دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور انہیں بے وقوف بنانے کا عالمی تہوار ہے۔ اس کا خصوصی دن "یکم اپریل" ہوتا ہے۔ اور اس کا لفظی معنی "اپریل کا دھوکہ" ہے۔ بلاشبہ یہ جُھوٹ کا عالَمی دن بن چکا ہے۔یہود ونصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے معاشرہ میں جو نت نئی رسومات رائج ہوتی جارہی ہیں، انہیں میں سے ایک یہ ناسور بھی ہے جو اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔اس کے مطابق "یکم اپریل کو جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اسے کمال اور فن قرار دیا جاتا ہے اور اسے prank کہا جاتا ہے۔"
جو جتنی مہارت سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے اور بے وقوف بنا دے، اسے اتنا ہی سمارٹ، ذہین، قابل تعریف اور "اپریل فول"سے صحیح فائدہ اٹھانے والا تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نوعیت کے مذاق کو درحقیقت "بدمذاقی" کہنا چاہیے۔مثلاً کسی کو یہ فون یا میسج کرنا کہ "آپ کے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے یا فلاں دوست یا رشتہ دار کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا ہے۔"کسی خاتون کو یہ فون کرنا کہ "آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق دے دی ہے۔"کسی کمپنی ملازم کو یہ فون کرنا کہ "آپ کے ادارہ یا کمپنی نے آپ پر فلاں الزام لگا کر آپ کو جاب سے فارغ کر دیا ہے۔"یا کسی اہم ادارہ مثلاً فائر بریگیڈ اسٹیشن کو یہ فون کرنا کہ" فلاں جگہ انتہائی خطرناک آگ لگ گئی ہے، فوراً پہنچیں۔"یا پولیس اسٹیشن فون کرنا کہ "فلاں جگہ بم دھماکہ ہو گیا ہے۔ فوراً پہنچیں۔" وغیرہ۔
پھر حقیقت واضح ہونے پر "اپریل فول، اپریل فول" کہہ کر مذاق اڑایا اور دوسرے کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔بلاشبہ اس قسم کے مذاق نہایت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔انگریز یکم اپریل کو بے وقوفوں اور پاگلوں کا دن کہتے ہيں۔ اس لیے کہ اس دن لوگ اتنے بڑے بڑے جھوٹ بولتے ہيں جنہيں سننے والا سچ سمجھتا ہے لیکن وہ مذاق ہوتے ہیں۔
کتنے لوگ ہیں جو اس کے بھیانک پس منظر سے واقف ہیں؟
اپریل فُول کے آغاز کے بارے میں مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ سقوط غرناطہ کے بعد عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی اور ان کا قتل عام کیا۔ بچے کھچے پوشیدہ مسلمانوں کے لیے انہوں نے ایک سازش تیار کی کہ اعلان کر دیا کہ "تمہیں افریقہ بھیج دیا جائے گا، تم لوگ اسپین چھوڑ دو۔"
مسلمان اس دلکش فریب میں آگئے اور اپنا مال و اسباب اور علمی ذخیرہ جمع کرکے عیسائی حکومت کی طرف سے مہیا کیے گئے بحری جہازوں میں سوار ہوگئے لیکن ان بے چاروں کو کیا پتہ تھا کہ آگے ان کے ساتھ موت کا کیا تماشہ ہونے والا ہے؟اگرچہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو تیار نہ تھے لیکن پھر بھی وہ اسلام پر عمل پیرا ہونے کی خاطر ہجرت اور جلا وطنی کے لیے تیار ہو گئے۔ انہیں خوشی تھی کہ "ہماری جانیں بچ جائیں گی اور ہم ظلم و ستم کے اس ماحول سے دور چلے جائیں گے۔ اور نئی جگہ ہمیں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع مل جائے گا۔"
بندرگاہ پر حکومتی اہلکاروں اور جرنیلوں نے انہیں رخصت کیا ۔ سمندر کے عین درمیان میں پہنچ کر منصوبہ بندی کے تحت ان جہازوں کو غرق کر دیا گیا۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ وہ قیمتی علمی ذخیرہ بھی برباد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑی مشکل سے بچا کر جمع کیا تھا اور اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے۔یہ افسوسناک واقعہ گیارویں صدی عیسوی کے آغاز میں یکم اپریل کو پیش آیا تھا۔اس سازش پر اسپین میں عیسائیوں نے خوشی اور جشن منایا کہ "ہم نے کس طرح مسلمانوں کو بے وقوف بنایا اور موت کے گھاٹ اتارا ہے۔" انہوں نے اسے "فرسٹ اپریل فول" کا نام دے دیا۔ یعنی "یکم اپریل کے بے وقوف"اس کے بعد اپریل فول کا دن اسپین سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گیا اور اب یہ دن باقاعدہ اسلامی و مشرقی ممالک سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
اسلام نے مزاح، مذاق اور خوش طبعی کی اجازت دی ہے۔ کئی مواقع پر رسول اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مذاق فرماتے تھے۔ لیکن یہ مذاق جھوٹا اور تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہیا رسول اللّٰہ انّک تداعبنا، قال: انّی لا اقول الاّ حقًّا (سنن ترمذی)
ترجمہ: "اے اللہ کے رسول! (ﷺ) آپ تو ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں؟" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "(میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر) سچی اور حق بات کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔"امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ "مزاح و مذاق پانچ شرطوں کے ساتھ جائز ہے بلکہ حسنِ اخلاق میں داخل ہے اور ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو جائے تو پھر مذاق ممنوع اور ناجائز ہے۔
1 مذاق تھوڑا یعنی بقدرِ ضرورت ہو۔
2 اس کا عادی نہ بن جائے۔
3 حق اور سچی بات کہے۔
4 اس سے وقار اور ہیبت کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
5 مذاق کسی کی اذیّت کا باعث نہ ہو۔
(احیاء العلوم، ج 3، ص 324- 326)
"اپریل فول" کی ممانعت کی وجوہات
اسلامی تعلیمات کے مطابق علماء نے مختلف وجوہات کی وجہ سے "اپریل فول" منانا ممنوع قرار دیا ہے۔
جھوٹ کبیرہ گناہ :اس رسم ”اپریل فول“ میں سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے۔ اور جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد مبارکہ ہے:فنجعل لعنت اللّٰہ علی الکاذبین (آل عمران: 61) ترجمہ: "پس لعنت کریں اللہ تعالیٰ کی ان لوگوں پر جو جھوٹے ہیں۔"
سب سے پہلے شیطان نے جھوٹ بول کر حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں شجر ممنوعہ کا پھل کھلایا تھا۔جھوٹ بولنے سے دل سخت، سیاہ اور زنگ آلود ہو جاتا ہے۔
ایک حدیث میں جھوٹ بولنا منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
غیر مسلموں سے مشابہت کی ممانعت:نبی کریم ﷺ نے غیر مسلموں کے طریقہ زندگی کو اپنانے سے منع فرماتے ہوئے ان الفاظ میں وعید فرمائی ہے کہ: "من تشبّہ بقوم فھو منھم" (سنن ابی داؤد:3512)ترجمہ: "جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریقے کو اختیار کرے گا اس کا شمار انہی میں ہوگا۔"ایک حدیث میں جھوٹ بولنا منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
دھوکہ دہی:ایک حدیث میں ارشاد ہے کہمَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․( صحیح مسلم)ترجمہ: "جو شخص ہمیں (مسلمانوں کو) دھوکا دے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔"
جھوٹ کی بدبو: نیز احادیث میں بھی مختلف انداز سے اس کی قباحتیں بیان کی گئی ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ (سنن ترمذی)ترجمہ: "جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے (جو اس نے بولا ہے) رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔"
جھوٹ ایمان کا منافی عمل:
نبی کریم ﷺ نے ایک اور حدیث میں جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا۔ حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ أی کون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أی کون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم، فقیل لہ أی کون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (مؤطا امام مالک) ترجمہ: "کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟" آپ نے ارشاد فرمایا: "ہاں، (مسلمان میں یہ کمزوری ہوسکتی ہے)" پھر عرض کیاگیا کہ "کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟"ارشاد فرمایا: "ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے)" پھر عرض کیاگیا کہ "کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟" فرمایا کہ "نہیں، (یعنی ایمان کے ساتھ جھوٹ جمع نہیں ہوسکتا۔)"
جھوٹے کی سزا :حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے اپنا خواب بیان فرمایا کہ آج رات میں نے یہ خواب دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارضِ مقدس کی طرف لے گئے تو وہاں دو آدمی دیکھے۔ ایک بیٹھا ہوا تھا اور دوسرا کھڑا تھا۔ کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کی بانچھ (گال) کو لوہے کی زنبور سے گدّی تک چیرتا تھا، پھر دوسری بانچھ کو اسی طرح کاٹتا تھا۔ اتنی دیر میں پہلی ٹھیک ہو جاتی تھی اور اس کے ساتھ یہ عمل مسلسل جاری تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ:
اَمَّا الَّذِیْ رَأَیْتَہ یُشَقُّ شِدْقُہ فَکَذَّابٌ یُحَدِّثُ بِالْکَذِبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْہُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْاٰفَاقَ فَیُصْنَعُ بِہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ․ (صحیح بخاری)
ترجمہ: " وہ شخص جسے آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کی بانچھیں چیری جارہی ہیں، وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں میں پہنچ گیا۔ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا۔"
جھوٹ بڑی خیانت ہے:رسول اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان ابن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:کَبُرَتْ خِیَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ہُوَ لَکَ بِہ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ بِہ کَاذِبٌ․ (مشکوٰة المصابیح) ترجمہ: "یہ بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھتا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔"
جھوٹ سے بچنے والے کے لیے جنت کی ضمانت:اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ جھوٹ بولنے سے بچنے پر (اگرچہ مذاق سے ہی ہو) جنت کی ضمانت لی ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الکِذْبَ وَاِنْ کَانَ مَازِحًا․ (الترغیب والترہیب)ترجمہ: "میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچ میں گھر کی کفالت لیتا ہوں جو جھوٹ کو چھوڑدے، اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔"
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر لحاظ سے بدترین ، خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور بڑی شرمناک ہے۔ اور عقل و نقل کے بھی خلاف ہے۔ یہ درج ذیل کئی خطرناک گناہوں کا مجموعہ ہے:
1 کفار اور یہود ونصاریٰ سے مشابہت
2 مسلمانوں سے جھوٹا اور ناحق مذاق
3 جھوٹ بولنا اور ہلاکت پانا ۔
4 مسلمانوں کو دھوکہ دینا
5 لوگوں کو مشکل و مصیبت میں ڈالنا اور اذیت پہنچانا
6 دوسروں کی تباہی و بربادی کی خوشی منانا ۔
7 دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنا ۔
8 منافقت میں ڈوب جانا۔
9 اللہ کو ناراض کرنا۔
10 دنیا و آخرت میں خسارہ اور تباہی و بربادی کا مقدر ہونا
لیکن"اپریل فول" کئی بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔ معاشرے کے لیے نہایت نقصان دہ، اور مسلمانوں کے لیے تکلیفوں اور اذیتوں کا باعث ہے۔ یہ جھوٹے مذاق دوسروں کے لیے نقصان دہ اور باعث تکلیف ثابت ہوتے ہیں۔ بسا اوقات بڑے اچھے اور خوش گوار تعلقات بھی اس کے بعد نفرت اور بدگمانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور کئی دفعہ تو ایسے مذاق جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
اس تہوار سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تعلیمات اور علمائے کرام ایسے ہر مذاق سے روکتے ہیں جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو۔جان لیجیے کہ "اپریل فول" کس قدر نقصان دہ اور خطرناک ہے! آئیے! مل کر اپنے معاشرے کو ان گناہوں اور خرافات سے پاک کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس فضول رسم کی مکمل حوصلہ شکنی کریں!
تبصرہ لکھیے