لاہور: ورلڈکپ سیمی فائنل میں پاکستان آزمودہ ہتھیاروں سے کینگروزپرحملہ کرے گا جب کہ بابر اعظم نے مسلسل 5 فتوحات حاصل کرنے والی الیون کو ہی برقرار رکھنے کا عندیہ دے دیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہوگا،گرین شرٹس پانچوں میچز جیت کر میگا ایونٹ میں ابھی تک ناقابل شکست ہیں، دوسری جانب کینگروز نے 8پوائنٹس کے ساتھ بہتر رن ریٹ کی بدولت جنوبی افریقہ کو ہرا کر فائنل فور میں جگہ بنائی،پاکستان ابھی تک کمزور مہرے ثابت ہونے والے حسن علی اور فخرزمان کو تبدیل کیے بغیر بہترین کارکردگی سے آسٹریلیا کو زیر کرنے کیلیے پْرعزم ہے۔
دبئی سے ورچوئل پریس کانفرنس میں کپتان بابر اعظم نے کہاکہ ورلڈکپ میں ابھی تک گرین شرٹس نے اچھی کرکٹ کھیلی ہے، پانچوں میچز میں کہیں بیٹنگ، بولنگ اور تو کہیں فیلڈنگ میں بہتری لانے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی،ہم ٹیم میٹنگز میں ان معاملات پر بات کرتے رہے ہیں، نیٹ سیشنز میں خامیوں کو دور کرنے کیلیے کوشش بھی کی جس کے اثرات بھی نظر آئے،ہر مقابلے میں مختلف مین آف دی میچ کا مطلب ہے کہ کھلاڑی ذمہ داری لے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ کپتانی کا تجربہ بڑھا، مائنڈ سیٹ کے مطابق کمبی نیشن کیلیے جو کھلاڑی مانگے وہ ملے تو آن اور آف دی فیلڈ کھل کر جراتمندانہ فیصلے کیے، 8سے 10کھلاڑی چیمپئنز ٹرافی میں ایک ساتھ کھیل چکے ہیں، بطور کپتان تجربات کا فائدہ اٹھایا، مزید سیکھنے کا عمل جاری رہے گا، آسٹریلیا کیخلاف سیمی فائنل میں بھی جیت کا کا تسلسل برقرار رکھیں گے۔
بابر اعظم نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی میں کوئی ٹیم کمزور نہیں ہوتی، ہر کھلاڑی اپنا 100 فیصد پرفارم کرنے کی کوشش کرے گا، شائقین کی بڑی سپورٹ ملی،امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک سوال پر کپتان نے کہا کہ حسن علی ہمارے اہم بولر اور میچ ونر ہیں،ان کو ڈراپ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، پیسر بڑے میچز میں پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سیمی فائنل اور انشاء اللہ فائنل میں بھی ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، ٹیم میں تمام 11 کھلاڑی تو پرفارم نہیں کرسکتے، 1،2 بیٹسمین یا بولرز ہی چیلنج قبول کرتے اوردیگر ساتھ دیتے ہیں،فخر زمان اپنے انداز میں کھیلتے ہیں،جب ان کا اچھا دن ہو تووہ میچ کا پانسہ پلٹ دیتے ہیں، بطور ٹیم ہماری پرفارمنس اچھی اور سب حسن علی اور فخر زمان کو بھی سپورٹ کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بائیوببل میں مسلسل کرکٹ کھیلنے کا دباؤ تو ہوتا ہے، ایک ہی ماحول میں رہ کر منفی سوچ بھی آجاتی ہے،ہمیں مینجمنٹ کی رہنمائی حاصل رہی،پلیئرز نے بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا۔
پاور پلے میں زیادہ رنز نہ بن پانے کے سوال پر کپتان نے کہا کہ یو اے ای کی کنڈیشنز پر ابتدا میں تھوڑا سنبھل کر کھیلنا پڑتا ہے،ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پاور پلے میں 40سے 50رنز بنائیں، کبھی حریف کی بولنگ بھی ایسی ہوتی ہے کہ ہمیں وکٹیں بچاکر بتدریج رن ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔ پلان کے مطابق کھیلنے میں مشکل ہوجاتی ہے، بہرحال اگر وکٹیں نہ گنوائیں تو ہماری مڈل اور لوئر مڈل آرڈر بیٹنگ ایسی ہے کہ پاور پلے میں کم رنز کی کسر بعد کے اوورز میں پاور ہٹرز پوری کرسکیں، کریز میں اترنے کے بعد پچ، کنڈیشنز اور حریف بولرز کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کس پلان کے ساتھ کھیلنا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے پاور پلے میں بھارت کیخلاف 43اور نیوزی لینڈ کے مقابل صرف 30رنز اسکور کیے تھے، بعد ازاں کمزور حریف افغانستان کیخلاف38، نمیبیا29 اور اسکاٹ لینڈ سے میچ میں 35 رنز بنائے،البتہ اس دوران وکٹیں صرف 2 ہی گریں۔
تبصرہ لکھیے