ہوم << دل ہوتا ہے سیپارا۔۔ اویدہ بیگم

دل ہوتا ہے سیپارا۔۔ اویدہ بیگم

لوگوں کی طرف سے چلائے ہوئے تیر ہر روز دل کو زخمی کرتے رہتے ہیں مگر بعض تیر دل میں ایسے چبھتے ہیں کہ وہ بے قرار ہوجاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ مسلمان پسماندہ لوگوں سے بھی زیادہ عملی میدان میں پیچھے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ بات ہم مسلمانوں کے بارے میں کہی جارہی ہے جن کے دین نے سب مذاہب سے زیادہ علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں ان پانچ آیتوں میں چار آیتوں میں علم کا ذکر ہے اور پہلی آیت لفظ ’اقرا‘‘ سے شروع ہوئی ہے۔ اقرا یعنی پڑھو۔ سورہ الزمر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔ اور سورہ المجادلہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے ’’تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں جن کو علم بخشا گیا ہے اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے (المجادلہ ۱۱) کوئی بھی بندہ علم حاصل کیے بغیر ایمان کے تقاضے پورا کرسکتا ہے نہ اللہ سے ڈر سکتا ہے جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔ علم کے بغیر زندگی کا سفر طے کرنا ایسا ہے جیسے کہ کوئی اندھیرے میں اپنا راستہ تلاش کررہا ہو۔ اس کو سوائے ٹھوکریں کھانے اور ٹکرانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علم کے بغیر خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے: اللہ ان لوگوں کے درجے بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہو اللہ سے اس کے بندوں میں اہل علم ہی ڈرتے ہیں (فاطر ۲۸) معلم انسانیت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’علم حاصل کرو گود سے لے کر گور تک‘‘

علم کسی وقتی نفع یا کسی وقت جاب کے لیے نہیں ہوتا۔ علم کا مقصد انسانی شخصیت کی تعمیر ہے۔ علم انسانی شخصیت کی غذا ہے جس طرح جسم مادی غذا کے بغیر ناکارہ ہوجاتا ہےاس طرح انسانی شخصیت علم کے بغیر ناقص ہوجاتی ہے۔ علم کا تعلق ذہن سے ہے علم سے ذہن کو تندرستی ملتی ہے وہ بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے کوئی بھی جسمانی عمل ایک محدود عمل ہے ایک مقام تک پہنچ کر جسمانی عمل کی حد آجاتی ہے مگر علم کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ انسانی شخصیت کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل بھی ختم نہیں ہوتا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے۔ کوئی آدمی خود سے ساری باتوں کو جان نہیں سکتا۔ اس کمی کی تلافی کے لیے علم حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جاننے والے نہ جاننےوالے برابر نہیں ہوتے‘‘ انسان جانے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا یعنی کام کرنے کے لیے جاننا بے حد ضروری ہے۔ اللہ کے احکامات کے مطابق انسان اسی وقت زندگی گزار سکتا ہے جب اس کو اللہ کے احکام معلوم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف میں علم حاصل کرنے کا اس قدر شوق پیدا ہوگیا تھا کہ علم کی راہ میں انہوں نے ہر قسم کی مشقتیں برداشت کیں۔ فکر و نظر کا کوئی میدان ایسا نہیں جس میں ہمارے اسلاف نے اپنے نقوش ثبت نہ کیے ہوں۔

یہ ہیں شمس العلماء امام سرخسی، حکومت وقت ان کی حق گوئی کو برداشت نہ کرسکی اور ان کو ایک اندھے کنویں میں قید کردیا۔ قید کی مدت ۱۴ سال تھی۔ کنویں میں کوئی کتاب ان کے پاس نہیں تھی ان کے شاگرد کنویں کے منڈیر پر بیٹھ کر کتاب پڑھتے استاد اس کی شرح کرتے جاتے تھے۔ اسی طرح کتاب المبسوط کی تین جلدیں اور شرح كتاب السير الكبير کی چار جلدیں تیار ہوئی ہیں۔

یہ ہیں ابن تیمیہ شیخ الاسلام جو فرماتے ہیں ’’بسا اوقات صرف ایک آیت کے مطالعے کے لیے میں نے سو تفسیروں کا مطالعہ کیا ہے۔ مطالعہ کے بعد اللہ سے دعا کرتا کہ وہ مجھے اس آیت کا فہم عطا کرے ۔ ایک مرتبہ حکومت وقت نے نہ صرف ان کو جیل بیج دیا بلکہ لکھنے پڑھنے کا سامان ضبط کرلیا۔ علم کے اس شیدائی نے ۔۔۔۔ کوئلہ سے لکھنا شروع کردیا۔ ان کے متعدد رسائل اور تحریریں کوئلہ سے لکھی ہوئی ہیں ایک دن میں وہ اتنا لکھا کرتے جتنا کاتب ایک ہفتہ میں لکھا کرتا۔ ایک مرتبہ بیمار ہوئے طبیب نے کہا مطالعہ نہ کرنا ورنہ صحت پر برا اثر پڑے گا۔ آپ نے طبیب سے سوال کیا ’’جس کام سے طبعیت کو راحت محسوس ہوتی ہو کیا اس میں مشغول رہنے سے مرض میں افاقہ نہیں ہوتا؟ طبیب نے کہا ضرور ہوتا ہے۔ فرمانے لگے تو میرا جی علم و مطالعہ ہی میں راحت محسوس کرتا ہے۔

یہ ہیں عاشق علم ابن سینا۔ دنیائے اسلام کے شہرہ آفاق سائنس دان جنہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں۔ ان کی الحاصل و المحصول بیس جلدوں میں الانصاف بیس جلدوں میں اور الشفا اٹھارہ جلدوں میں لسان العرب دس جلدوں میں، اس طرح دیگرکئی تصانیف کا ذخیرہ کئی جلدوں میں ہے۔ آپ کی کتاب القانون طب کی دنیا میں برسوں نہیں صدیوں چھائی رہی۔ طب کے شعبے میں اس کے بعض حصے اب بھی داخل نصاب ہیں ۔

یہ ہیں مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دیو بند۔ آپ مطالعہ میں اس قدر مصروف رہتے کہ پاس رکھا ہوا کھانا کوئی اٹھا کر لے جاتا تو آپ کو خبر نہ ہوتی۔ بار ہا ایسا اتفاق ہوتا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے رات گزار دیتے رات کے کھانے کا خیال بھی نہ رہتا۔ سارا وقت ایسی حالت میں گزراتے کہ کتاب نظر کے سامنے ہوتی اور ذہن مضمون کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوتا۔

یہ ہیں امام العلم علامہ محمد انور شاہ کشمیری۔آپ کے علم وادب کا یہ عالم تھا کہ خود ہی فرمایا کہ میں کتاب کو مطالعہ کے وقت اپنے تابع نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہوکر مطالعہ کرتا ہوں۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کتاب پر حاشیہ تیڑھامیڑھا ہوتا تو بجائے اس کے کہ کتاب کو حاشیہ کے مطابق پھیر لیں کتاب کو بغیر گھمائے آپ خود اس کی طرف گھوم جاتے تھے گویا پروانہ شمع کے گرد گردش کررہا ہو۔ چنانچہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ لیٹ کر مطالعہ کرتے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کرمطالعہ کررہے ہیں۔ کتاب سامنے رکھ کر پورے ادب کے ساتھ آپ کتاب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔

یہ ہیں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ جو تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمدالیاس کے بھتیجے ہوتے ہیں۔ آپ کے ایک شاگرد کہتے ہیں کہ ایک بار موسلا دھار بارش ہورہی تھی تمام سڑکوں پر گھٹنوں برابر پانی بھرا ہوا تھا اس حال میں امید نہیں تھی کہ مولانا درس حدیث کے لیے مدرسہ تشریف لے جائیں گے کیونکہ آپ کا مکان دارالحدیث سے کافی فاصلہ پر تھا مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مولانا کو تشریف لائے کافی دیر ہوچکی ہے۔

یہ ہیں مولانا اشرف علی تھانویؒ۔ آپ نے اپنی عظیم تصنیفات کے ذریعے عوام و خواص کی رہبری فرمائی ان کو صحیح دین سے آشنا کیا۔ نشر و اشاعت کے اس دور میں مولانا تھانوی کا یہ ایک عظیم اور امتیازی کارنامہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد تصانیف ہیں۔ ہر فن و علم پر اس قدر تالیفات فرمائیں کہ اس کی نظیرمشکل سے ہی ملے گی۔

یہ ہیں شاہ عبدالعزیز جو شاہ ولی اللہ کے فرزند ارجمند ہیں جنہوں نے اردو میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی۔ ایک وقت مطالعہ کے دوران شاہ عبدالعزیز نے پانی مانگا اس کا علم جب شاہ ولی اللہ کو ہوا تو انہیں بہت زیادہ افسوس ہوا۔ بڑے افسوس سے کہنے لگے آج علم ہمارے خاندان سے رخصت ہوگیا۔ میرے بیٹے کو مطالعہ کے دوران پیاس لگی اور مطالعہ کے دوران اس نے پانی مانگا۔ بیوی نے کہا حضرت ! صبر کریں۔ انہوں نے بیٹے کو پانی بھیجنے کے بجائے سرکہ بھیج دیا۔ شاید عبدالعزیز مطالعہ میں اس قدر مشغول تھے اور پیاس کی شدت اس قدر تھی کہ انہوں نے سرکہ پی لیا اور ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ سرکہ پی رہے ہیں یا پانی۔

یہ ہیں مولانا ابوالکلام آزاد: آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم۔ آپ کے مطالعہ میں استغراق کا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ آپ کمرے میں مطالعہ میں مصرو ف تھے ایک چور کمرے میں گھس آیا اور چھ ہزار روپے لے کر فرار ہوگیا اس کا آپ کو پتہ ہی نہیں چلا۔

یہ ہیں مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی شفیع: آپ اپنے دور طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں جب مدرسے میں کھانے اور آرام کرنے کا وقفہ ہوتا تو میں اکثر دارالعلوم کے کتب خانے میں چلاجاتا چونکہ وہ وقت ناظم کتب خانے کے آرام کا بھی ہوتا۔ اس لیے میں ان کو اس بات پر آمادہ کرلیا کرتا تھا کہ دوپہر کے وقفے میں جب وہ گھر جانے لگیں تو مجھے کتب خانے کے اندر چھوڑ کر باہر سے تالا لگاجائیں۔ وہ ایسا کرتے اور میں کتابوں کے مطالعے میں لگ جاتا وہ کہتے ہیں کہ دارالعوم دیو بند کے کتب خانے کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو میری نظروں سے نہ گزری ہو۔
یہ ہیں ہمارے اسلاف کے شوق علم اور مطالعہ کی لگن کے چند نمونے ؎
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

عروج و زوال قوموں کی زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں۔ آج حالات نے ہم کو پیچھے دھکیل دیا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ مسلمانوں کے پاس علم کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ آج کے اس دور انحطاط میں بھی بچہ جوں ہی بولنے لگتا ہے اس کو قریب کی مسجد میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں علم حاصل کیے بغیر عبادت کی ہی نہیں جاسکتی۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ یعنی اس کو اپنی پوری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے۔ اللہ کے احکام معلوم کرنے کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ بات دعویٰ سے کہی جاسکتی ہے کہ جاہل سے جاہل مسلمان مرد ہو یا عورت، وہ اپنے مذہب کی بنیادی باتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسا دعویٰ دوسرے مذاہب کے ماننے والے نہیں کرسکتے۔ ہم کو وراثت میں علم کی ہی دولت ملی ہےاس لیے وہ وقت دور نہیں جب ہم علم کے میدان میں مثل خورشید ابھریں گے۔