’کامیاب جوان پروگرام ‘میں جوان سے مراد اگر جناب عثمان ڈار ہیں تو بلا شبہ یہ ایک کامیاب پروگرام ہے لیکن اگر جوانوں سے مراد رعایا ہے تو مجھے ڈر ہے اقتدار کی بہار گزرنے کے بعد اس کا نیا نام ’ کامیاب نیب پروگرام ‘ ہو گا۔ عثمان ڈار کا ایک ٹویٹ میرے سامنے رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :’ کامیاب جوان پروگرام کے دو سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم عمران خان کو کارکردگی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد جوانوں کو روزگار ، ہنر اور تکنیکی مہارت فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔35 ارب روپے کی رقم ملک بھر کے نوجوانوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔اگلا ہدف ویژن 2023 ہو گا ‘‘۔
وزیر اعظم کو پیش کی گئی رپورٹ میں موجود ہنرکاری پر بعد میں بات کرتے ہیں ، پہلے اس ٹویٹ میں موجود کمالات پر غور فرمائیے۔ گمراہ کن اندا ز سے ایک عمومی سی بات کر دی گئی ہے کہ اب تک ایک لاکھ سے زائد جوانوں کو روزگار ، ہنر اور تکنیکی مہارت فراہم کی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ہنر اور تکنیکی مہارت پر کتنوں کو ٹرخایا گیا ہے اور حقیقت میں روزگار حاصل کرنے والے کتنے ہیں۔رپورٹ کھولیں تو وہاں سب سے پہلے اس پروگرام کی تحسین میں حجام کا بیان ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی تکنیکی مہارت ہے جو حجام کو پہلے معلوم نہیں تھی اور اس پروگرام کے ذریعے سکھائی گئی۔’ حجامت ‘ کے وہ کون سے اسرار و رموز ہیں جو اب سکھائے جا رہے ہیں؟
35 ارب روپے کوئی معمولی رقم نہیں کہ کوئی صاحب نازو ادا سے کہہ دیں خرچ ہو گئی اور اس دعوے کو مان لیا جائے ۔ معاشی بحران سے دوچار ملک کے 35 ارب روپے صرف دو برس میں خرچ کر دینا اور وہ بھی ایسے پراجیکٹس میں جن کے تعارف میں آپ کے پاس عمومی سے اقوال ز ریں کے علاوہ کچھ نہ ہو ایک خوفناک واردات ہے۔ آج نہیں تو کل ، یہ واردات نیب کی میز پر رکھی ہو گی ۔ عثمان ڈار تو اس وقت جانے کہاں ہوں گے لیکن عمران خان کا اخلاقی وجود کٹہرے میں ہو گا۔
ایک اور ٹویٹ میں خود عثمان ڈار صاحب نے وہ رپورٹ بھی شیئر کر دی ہے جو جناب وزیر اعظم کو پیش کی گئی ۔ اس رپورٹ کے مطالعے کا حاصل صدمے کی کیفیت ہے۔ عمران خان نے اگر اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد عثمان ڈار کی سرزنش نہیں کی تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔اور اگر انہوں نے اس پر ڈار صاحب کی تحسین کی ہے تو یہ تو باقاعدہ ایک المیہ ہے۔ رپورٹ کیا ہے؟ اگر آپ نے The Punishment of Khipil پڑھ رکھی ہے تو یوں سمجھیے یہ رپورٹ خپل صاحب ہی کے کسی منصوبے کا تعارف قرار دی جا سکتی ہے۔ میدان ِ واردات میں اتری کوئی نئی این جی او اپنے ڈونر کو لبھانے کے لیے اس طرح کا ’’ کھلار‘‘ ڈال لے تو یہ بات قابل فہم ہے لیکن ایک سرکاری ادارہ دو سالوں میں 35 ارب روپے خرچ کر کے اس طرح کی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر رہا ہو تو یہ تو باقاعدہ ایک فوجداری قسم کی جسارت ہے۔ یہ رپورٹ 55 صفحات پر مشتمل ہے اور ان پچپن صفحات میں ایک صفحہ بھی ایسا نہیں جہاں ڈھنگ سے اس پورے پراجیکٹ پر کوئی دو چار پیراگراف لکھے گئے ہوں۔ تصاویر اور گرافکس سے بھری اس رپورٹ کو پڑھ کر آپ یہ تو جان سکتے ہیں کہ ’ کھلار‘ کیا ہوتا ہے لیکن اس سے متعلقہ پروگرام میں کیے جانے والے حیران کن اخراجات کی ڈور کا کوئی سرا آپ کے ہاتھ میں نہیں آتا۔یہ محض ایک فوٹو البم ہے جو رپورٹ قرار دے کر جناب وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اس رپورٹ کی ’ ایگزیکٹو سمری‘ محض پانچ سطروں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ کچھ اقوال زریں گرافکس کی صورت پیش کر دیے گئے ہیں۔ لیجیے خپل کا محل تیار ہے۔
آٹھویں صفحے پر ’ ویژن‘ بتایا گیا ہے۔ یہ ویژن بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی طالب علم اپنا نیا نیا سی وی تیار کرے اور لفظوں کی ملمع کاری میں اسے خود معلوم نہ ہو کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ رپورٹ میں تھری ایز یعنی Employment , Education اور Engagement کا ذکر کیا گیا ہے لیکن پوری رپورٹ میں ان تینوں امور کی تفصیل کہیں بھی دستیاب نہیں ۔نہ ہی کہیںیہ بتایا گیا کہ کس مد میں کتنے پیسے خرچ ہوئے اور ان کی جزئیات کیا ہیں۔ تفصیلات جاننے کے لیے جناب عثمان ڈار کے ٹوئٹر ہینڈل کا وزٹ کیا تو وہاں بھی’ عمران خان کے ویژن ‘ کی تکرار ہے۔ عجیب شخصیت پرستی تحریک انصاف میں در آئی ہے کہ ہر کام’ عمران خان کے ویژن ‘کے مطابق ہوتا ہے۔ ٹوئٹر ہنڈل کے اجمالی سے جائزے سے مجھے یہ شک پڑ گیا ہے کہ عثمان ڈار صاحب صبح اٹھ کر ناشتہ بھی’ عمران خان کے ویژن‘ کے مطابق ہی فرماتے ہوں گے۔معلوم نہیں عمران خان خوشامد کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کرتے۔ کچھ تصاویر ہیں ، کچھ گرافکس ہیں اور کچھ شخصیات کی آرا۔ آراء کے بارے تو سب کو معلوم ہے کہ یہ پی آر کا کھیل ہوتا ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی کے کچھ لوگوں کی آراء بھی ہیں جس میں حجام ، گوالے ، درزی وغیرہ بتا رہے ہیں کہ اس پروگرام نے ہمیں بہت مدد دی لیکن اس مدد کی تفصیل کیا ہے اس کے بارے میں راوی کے ساتھ ساتھ ستلج اور چناب بھی خاموش ہیں۔ یعنی فائل کا پیٹ بھرنے اور انجمن ستائش باہمی کے میلے میں نمائش کے لیے ایک ز رق برق سی رپورٹ تیار ہے لیکن اگر کوئی سچ میں جاننا چاہے کہ کامیاب نوجوان پروگرام کی تفصیل کیا ہے تو اسے اس رپورٹ سے مایوسی ہی ہو گی۔ دو سال کے بعد ایک رپورٹ تیار ہو رہی ہے اور وہ رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی ہے لیکن اس میں تفصیل کے لیے دو چار پیراگراف بھی نہیں ہیں۔ اقوال زریں کی صورت کچھ فقرات ہیں جو بڑی بڑی تصاویر کے نیچے دکھانے کو موجود ہیں۔
سوال یہ ہے کیا دو سال کے بعد کارکردگی کی رپورٹ ایسے تیار کی جاتی ہے؟ یہ جناب وزیر اعظم کا استحقاق ہے جسے چاہیں مشیر بنا لیں۔ بھلے سیالکوٹ سے دو دفعہ قومی اسمبلی اور ایک دفعہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والے ہی کو بنا لیں ۔ ان کی جماعت ہی اگر یہ سوال نہیں اٹھانا چاہتی کہ جس شخص کو اس کے حلقے کے عوام دو مرتبہ رد کر چکے ہوں اسے جوانوں کے امور کا مشیر بنا کر آپ جوانوں میں کون سے میرٹ اور کون سے استحقاق کا شعور عام کرنا چاہتے ہیںتو کسی اور کو یہ سوال اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے اندر ہی اگر جارج آرول کے اینمل فارم کی طرح کچھ لوگ ’’ زیادہ ہی برابر‘‘ ہیں تو ان کا داخلی معاملہ ہے۔البتہ قومی خزانے سے ایک ادارہ 35 ارب روپے خرچ کر چکا ہو تو از رہ مروت اسے کم ا ز کم اپنی دو سالہ رپورٹ تو ڈھنگ سے پیش کرنی چاہیے ۔
تبصرہ لکھیے