1965ء کا واقعہ ہے۔ ہندوستان کے ایک صنعت کار جرمنی گئے۔ وہاں ان کو ایک کاخانے جانے کا موقع ملا۔وہ ادھر ادھر گھوم کر کارخانے کی کارگردگی دیکھتے رہے۔اس دوران وہ ایک کاریگر کے پاس کھڑے ہوگئے اوراس سے کچھ سوالات کرنے لگے۔بار بار خطاب کرنے کے باوجود کاریگر نے کوئی توجہ نہیں دی وہ بدستور اپنے کام میں لگا رہا۔کچھ دیر بعد کھانے کے وقفہ کی گھنٹی بجی۔ اب کاریگر اپنی مشینوں سے اٹھ کر کھانے کے ہال کی طرف جانے لگا۔ اس وقت مزکورہ کاریگر ہندوستانی صنعت کار کے پاس آیا۔ اس نے صنعت کار سے ہاتھ ملایا اور اس کے بعد تعجب کے ساتھ کہا: کیا آپ اپنے ملک کے کاریگروں سے کام کرتے وقت بھی باتیں کرتے ہیں۔ اگر میں اس وقت آپ کی باتوں کا جواب دیتا تو میرے چند منٹ ضائع ہو جاتے اور کمپنی کا نقصان ہو جاتا۔ جس کا مطلب پوری قوم کا نقصان تھا۔ ہم یہاں اپنے ملک کو فائدہ پہنچانے آتے ہیں ملک کو نقصان پہنچانے نہیں آتے۔
یہی وہ کردار ہے جو مغربی قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ وہاں کا ہر فرد اپنے کام کو بخوبی سرانجام دینے کو اپنا فرض سمجھتا ہے وہ اپنی ذات کو قوم کے تابع سمجھتا ہے۔ جہاں ذات اور قوم کے مفاد میں ٹکراؤ ہو وہاں قوم کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشیں دبا لیتا ہے۔
قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔ قوم کا معاملہ وہی ہے جو مشین کا معاملہ ہوتا ہے۔ مشین اس وقت صحیح کام کرتی ہے جب اس کے پرزے صحیح ہوں۔ اسی طرح قوم اس وقت درست رہتی ہے جب اس کے افراد اپنی جگہ درست کام کر رہے ہوں۔ مشین بنانا یہ ہے کہ پرزے بنائے جائیں۔ قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔ فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پرزے تیار کیے بغیر مشین کھڑی کرنا۔
فرد کردار سے بنتا ہے۔ لوگ عام طور پر دو ہی قسم کے لوگوں کو طاقتور سمجھتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس مادی چیزوں کا ڈھیر ہو۔ دوسرے وہ جو دادا گیری کرنا جانتے ہوں، مگر طاقت کا سب سے بڑا راز کردار ہے۔ کردار ایک ایسی چیز ہے جس کا مالک ہر ایک آدمی بن سکتا ہے اس کے لیے نہ مادی دیو ہونا ضروری ہے اور نہ جسمانی پہلوان۔ مشہور مقولہ ہے کہ جب تمہیں ورثہ میں مفلسی و تنگدستی ملیں۔ تو نیکی اور شرافت کو اپنا سرمایہ بنا لو۔ اعلیٰ کردار لعل و جواہر، سونے چاندی، تخت و تاج سے بہت زیادہ قیمتی ہے اور اس کی تشکیل میں جو محنت لگائی جاتی ہے وہ سب سے زیادہ قابل قدر ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ اگر آپ نے دولت کھوئی تو کچھ نہ گیا، اگر صحت کھوئی تو کچھ گیا، اگر کردار کھویا تو گویا سب کچھ چلا گیا۔
ایک انسان اپنے تمام اوصاف کا جوہر ملاتا ہے تب اس کا کردار بنتا ہے اور یہ کردار ہی ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتا ہے۔ انسان کا اپنا کردار ہی ہوتا ہے جو اس کے لیے مخلص دوستوں کا حلقہ پیدا کرتا ہے اور یہ انسان کے برے کردار کا کرشمہ ہی کہلائے گا کہ لوگ اس کے سایہ تک سے بھاگنے لگتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنا کردار خود بناتا ہے وہ اپنے وقت کا ہر لمحہ اپنے کردار کی تعمیر میں صرف کرتا ہے۔ اس کا ہر اچھا برا فعل اس کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ اگر فرد باکردار ہو تو اس کا باکردار ہونا اس کی زبان میں یقین اور عزم کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور جہاں یقین اورعزم آ جائے وہاں کامیابی اسی طرح آتی ہے جس طرح سورج کے بعد روشنی اور پانی کے بعد سیرابی۔
تابناک کردار جن اوصاف کا مجموعہ ہوتا ہے ان میں فرض شناسی کا درجہ سب سے بڑا ہے. ایک بزرگ کا قول ہے کہ ادائیگی فرض کے بغیر قوت، نیکی، سمجھ، سچائی، محبت کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ اس کے بغیر زندگی کی تمام عمارت تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ فرض کا ادا کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ قرض کا ادا کرنا۔ وہ انسان جو اپنے فرض کو ادا کرنے سے بے پرواہ ہوتا ہے اس کی اخلاقی تباہی یقینی ہے۔ نہایت افسوس کہ ملک عزیز میں فرض کی ادائیگی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا اور یہ بیماری کسی خاص طبقے تک محدود نہیں۔ خواندہ و ناخواندہ، امیر و غریب، مزدور و مالک سب کے سب فرض کی ادائیگی میں بے پرواہی سے کام لیتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری قومی تنزلی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ جب تک ہمارے نوجوان فرض کی ادائیگی کو اپنا نصب العین نہ بنائیں گے ملک و قوم کی حالت کا سدھرنا ناممکن ہے۔
اعلیٰ کردار کا حامل بننے کے لیے ایفائے عہد یا وعدے کی پابندی ایک اہم وصف ہے۔ انسان لوگوں سے کوئی وعدہ کر کے اس سے پھر جاتا ہے تو وہ انسانی معاشرے میں ناقابلِ اعتبار سمجھ لیا جاتا ہے۔ اعتبار زبانی دعوؤں سے قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی ایک دن میں قائم ہوتا ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑی دولت اعتبار ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔ مگر لوگوں کے دلوں میں اعتبار اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب آپ وعدے کے پابند ہوں۔ جب آپ کی زبان ہی آپ کے ہر معاہدے کی ضمانت بن جاتی ہے تو پھر کامیابی ہر میدان میں آپ کے قدم چومتی ہے۔
کردار کو آراستہ کرنے والے اوصاف میں سچائی نہایت قیمتی زیور ہے۔ صداقت کو کبھی بھی نہ تو لالچ کی امید سے اور نہ خوف کے باعث ہاتھ سے جانے دو۔ کیونکہ وہی انسان راست باز کہلانے کا مستحق ہے جس کے قدم آزمائش کے وقت متزلزل نہیں ہوتے۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ عام ہو چکا ہے۔ سچائی کی اہمیت کو معاشرے کی اکثریت فراموش کر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی میں بہت زیادہ برکت اور جھوٹ میں نقصان ہی نقصان ہے۔ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں جھوٹ سے بچنے اور سچائی سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
عدل و انصاف انسانی کردار کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ اشخاص حقیقت میں انسان کہلانے کے مستحق ہیں جن کی دوستی و طرفداری یا ذاتی عداوت و غصہ کوئی شے بھی صراط مستقیم سے نہیں ہٹا سکتی۔ بعض خیال کریں گے کہ ہمیں عدل و انصاف کی کیا ضرورت کیونکہ نہ ہم نے بادشاہی کے تخت پر بیٹھ کر فیصلے سنانے ہیں اور نہ ہی کبھی عدالت کی کرسی پر بیٹھنا ہے۔ مگر ہم میں سے ہر ایک کو زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف کو راسخ کرنا چاہیے۔ کیونکہ عدل و انصاف کی ضرورت چھوٹے معاملات میں بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ بڑے اور اہم امور میں۔ اگر آپ زندگی کے روز مرہ معاملات میں انصاف اور عدک سے منحرف جاتے ہو تو تم اتنے ہی ظالم اور بے انصاف ہو گے جتنا وہ بادشاہ جو تخت پر بیٹھ کر مظلوموں کی داد رسی نہیں کرتا۔
اعلیٰ کردار کے لئے ایمانداری جز لاینفک ہے۔ جو انسان ایمانداری کو اپنا لیتا ہے اس کے معیار کی ترقی ہو جاتی ہے۔ ایک ایماندار شخص ہمیشہ ایک کامیاب شخص ہوتا ہے۔ ایمانداری زندگی کا ایک بہترین طریقہ اور روشن راستہ ہے۔ اس روشن راستے پر چل کر ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
آپ کا ذاتی کردار آپ کی زندگی پر اچھے برے اثرات مرتب کرتا ہے اور آپ کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا انحصار آپ کے ذاتی کردار پر ہوتا ہے اس لیے اپنے کردار کا جائزہ لیتے رہیں۔ اپنے کردار کا جائزہ لینے کے بعد اپنی شخصیت سے متعارف ہوں۔ اپنی آواز اپنے انداز گفتگو کا جائزہ لیں۔ اپنی عادات کو پرکھیے اور بری عادات ترک کرتے ہوئے اچھی عادات کو اپنائیں۔ اپنے خیالات کو بلند اور کردار کو تعمیری رکھیں۔ زندگی کے مقاصد اور نصب العین طے کریں۔ جب بطور فرد ہم با کردار ہوں گے اور مشین کے پرزوں کی مانند اپنا اپنا کام ٹھیک سر انجام دیں گے تو ایک باکردار قوم بنے گی۔
تبصرہ لکھیے