نومبرشروع ہو گیا . حبس گرمی کی شدت میں کمی آنے کی وجہ سے فضا میں ٹھنڈک کا احساس رچ گیا تھا. موسم کی خوشگوار یت اور صبح چھٹی ہونے کی وجہ سے میں رات بارہ بجے کے بعد اپنے محلے کی خالی سڑکوں پر واک کا لطف اور ذکر الٰہی میں مست خالی سڑک پر تیز قدموں سے چل رہا تھا. موسم کی خوشگواریت، رات کی خاموشی اور ذکر کی حلاوت سے جذب و شکر کی کیفیت کو انجوائے کر تا ہوا میں تنہا سڑک گردی میں مصروف تھا. زیادہ تر مکین نرم و گداز بستروں میں نیند کی دیوی کے مدہوش جھولوں میں غرق تھے. بہت کم لوگ اور ٹریفک سڑکوں پر موجود تھی.
میں خالی سڑکوں پر اپنی ہی دھن میں گم تھا کہ اچانک دور گلی میں ایک رکشہ داخل ہوا جو برق رفتاری سے جھولتا ہوا میری طرف آرہا تھا. رکشے کی برق رفتاری اور جھولتی رفتار سے میں خوفزدہ ہو کر سڑک کے ایک طرف لگ کر کھڑا ہوگیا تاکہ وہ آسانی سے گزر جائے اور میں دوبارہ واک کا عمل جاری رکھ سکوں ۔رکشے کی رفتار سے پتہ چل رہا تھا کہ ڈرائیور کسی ایمرجنسی میں تیزی سے کہیں جانے کی کو شش کر رہا ہے. رکشہ تیزی سے میری طرف آرہا تھا ، وہ جیسے ہی میرے قریب آیا، جھٹکے سے رک گیا. میں سمجھا شاید مُجھ سے کسی کا ایڈریس پوچھنا چاہ رہا ہے، لیکن اندر سے جو رکشہ ڈرائیور برآمد ہوا ، وہ میرا جاننے والا تھا. مجھے دیکھتے ہی چلا تے ہوئے گھبرائی آواز میں بولا، سر !شکر ہے آپ مل گئے. آپ کے گھر گیا تھا تو سیکورٹی گارڈ نے اس گلی کی طرف اشارہ کر دیا کہ اِس طرف واک کر رہا ہوں. سر میری مدد کریں، میں بہت مشکل اور ایمرجنسی میں ہوں. میرے ساتھ جوان لڑکی ہے جس کی زندگی کو شدید خطرہ ہے. مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تو آپ کی طرف لے کر آگیا. میں نے فورا پچھلی سیٹ پر دیکھا ، نیم بے ہوش سی کوئی لڑکی نیم دراز تھی. میرے اعصاب، دماغ، عقل و شعو ر ایسی کسی بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے. میں قدرے غصے میں بولا، میں اِس کا کیا کر سکتا ہوں، تم اِس کو پولیس یا ہسپتال کیوں نہیں لے کر گئے؟ تو پچھلی سیٹ پر پڑی لڑکی نے اٹھنے کی کو شش کی اور بولی انکل آپ کو اپنے بچوں کا واسطہ، خدا کے لیے میری مدد کریں، میں جہنم سے جان بچا کر بھاگی ہوں. اگر آپ نے میری مدد نہ کی تو میں خود کشی کر لوں گی یا زندگی کے باقی دن جسم فروشی کے اڈے پر گزر جائیں گے. پھر اُس نے روتے ہوئے بار بار کہا میر ی مدد کریں.
اس موقع پرمجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ لڑکی کون ہے ؟ کدھر سے آئی ہے؟ اِس کے دشمن کون ہیں؟ یہ کن سے جان چھڑا کر بھاگی ہے؟ اِس کے دشمن کتنے خطرناک ہیں؟ مجھے اِس جھگڑے میں پڑنا چاہیے یا نہیں؟ لیکن بیچاری کی درد میں ڈوبی چیخوں اور مدد مدد کی پکار نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا. ہم جس گلی میں تھے، چند گھر چھوڑ کر میرے جاننے والے میاں بیوی رہتے تھے، میں اُس گھر کی طرف چل پڑا. اُن کو اشارہ کیا میرے پیچھے آئیں. ساتھ ہی موبائل پر اپنے دوست کو کال ملائی کہ وہ جاگ رہا ہے کہ نہیں. دوست جاگ رہا تھا، اُس نے فون اٹھا لیا تو میں بولا دروازہ کھولو، میں دروازے تک آگیاہوں. اِس کے ساتھ ہی ہم گھر کے باہر پہنچ گئے تو دوست نے دروازہ کھولا. میں نے لڑکی کو اشارہ کیاکہ بیٹی باہر آجاؤ، ساتھ ہی دوست کو کہا یہ لاوارث لڑکی ہے جس کو مدد کی شدید ضرورت ہے. اِس کی بات سن کر اِس کی مدد کر نی ہے. لڑکی ہمارے حوالے کر کے رکشہ ڈرائیوریہ کہہ کر چلاگیا کہ سر مجھے آپ ہی نظر آئے، اِس لیے آپ کے پاس لے کر آگئے ۔
لڑکی کی حالت زندہ لاش کی سی تھی ہم نے پوچھنے کی کو شش کی لیکن وہ شدید خوف کی وجہ سے کچھ نہیں بتا رہی تھی. اِس دوران دوست کی بیوی بھی آگئی تو ہم نے لڑکی اُس کے حوالے کی کہ بھابی آپ اِس سے بات کریں، بھابی کافی دیر کوشش کرتی رہی لیکن لڑکی دہشت کا شکار بول نہیں رہی تھی تو دونوں میاں بیوی نے مجھے کہا سر آپ گھر چلے جائیں، رات کو ہمارے پاس ہے، آپ کل آکر بات کر یے گا، لہذا میں پریشان گھر واپس آگیا. شدت سے اگلے دن کا انتظار کر نے اور سوچنے لگا کہ اِس بیچاری کے ساتھ کیا ظلم ہوا ہوگا. اگلے دن دوپہر کو میرے دوست کا فون آیا، سر جی! رات تو لڑکی کچھ نہیں بولی لیکن آج دوپہر کو اُس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی درد ناک کہانی سنائی ہے. آپ آجائیں تو آپ کو ساری تفصیل بتاؤں گا. میں سارے کام چھوڑ کر دوست کی طرف گیا تو اُس نے جو داستان سنائی میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے. ظلم و بربریت اور فحاشی کا ایسا لیول تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا.
دوست نے بتایا کہ جب یہ لڑکی نارمل ہوئی تو ہمارے مشفقانہ سلوک سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا اِس طرح بتایا کہ میں لاہور سے ساٹھ کلومیٹر دور کی رہنے والی ہوں. چھ ماہ پہلے کسی شادی پر لاہور آئی تو چند دن لاہور میں رشتے داروں کے ہاں ٹھہری. ایک دن قریبی پارک میں گئی تو وہاں پر ایک لڑکے نے میری طرف موبائل نمبر کی پرچی پھینکی، کیونکہ میری وجود میں بلوغت کا طوفان بیدار ہو چکا تھا، جنس مخالف کی کشش میں اس لڑکے سے بات چیت شروع کر دی. چند دنوں میں ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی. یہ سلسلہ چلتا رہا. میں اُس لڑکے کے عشق میں اندھی ہو تی گئی. اس نے بھی مجھے شادی اور ساتھ زندگی گزارنے کے بہت سارے سہانے خواب دکھائے . آخر لڑکے نے مجبور کیا کہ تم ایک بار لاہور آؤ ، تم کو اپنے والدین سے ملانا ہے. پھر وہ تمھارا رشتہ لینے تمھارے گھر آئیں گے. میں پاگل لاہور آگئی تووہ مجھے کسی مکان میں لے گیا. میں ضد کر رہی تھی کہ میں نے واپس جانا ہے، مجھے جلدی والدین سے ملاؤ لیکن تھوڑی دیر میں اُس کے تین بد معاش دوست آگئے. وہ مجھے بھیڑیوں کے حوالے کر کے چلا گیا. وہ بے وفا دو دن بعد واپس آیا، جب میں برباد ہو چکی تھی. اب یہ چاروں رات کو شراب پی کر عیاشی کر تے. پندرہ دن گزر گئے، شراب کے نشے میں دھت بتاتےکہ ہم اِس طرح مختلف شہروں سے لڑکیا ں پیار کے وعدہ میں ورغلا کر لاتے ہیں. جب اُن سے جی بھر جاتا ہے تو جسم فروشی کے اڈے پر بیچ دیتے ہیں. اب تم واپس جانے والی غلطی نہ کر نا . اب مجھے پتہ تھا کہ یہ مجھے آگے بیچ دیں گے تو کل رات جب و ہ شراب کے نشے میں دھت تھے، میں واش روم کے بہانے نکلی اور دیوار پھلانگ کر سڑک پر آگئی. پھر یہ رکشے والا مجھے آپ کے پاس لے آیا.
اُس بیچاری نے اذیت و ظلم کی جو داستان سنائی، میرا قلم لکھ نہیں سکتا. میں نے اُس کو بلایا تو وہ سہمی ہوئی آکر بیٹھ گئی. میں نے نام پو چھا تو اُس نے نام کے ساتھ بتایاکہ میرے ابا مجھے پیار سے ’’گڈی ‘‘ کہتے تھے. پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. ہم سب کی آنکھیں بھیگ گئیں. چند دن بعد میرا دوست گڈی کو راز داری سے اُس کے گھر چھوڑ آیا . وہ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن آخر چلی گئی. ہم نے اُس کو سمجھا دیا تھا کہ ظلم کی داستان کا ذکر والدین سے نہ کر نا . میں جب بھی گڈی کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی یہ گڈیاں باپ کی عزت قدموں تلے روند کر اِن بھیڑیوں کے ہاتھوں لٹ جاتی ہیں. کاش اِن کو معلوم ہو کہ والدین ہی ان کا حقیقی سہارا ہیں۔
تبصرہ لکھیے