چند سال قبل یہ سننے میں آیا کہ نوجوان فیس بک سے بیزار ہوگئے ہیں، اور وہ دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام وغیرہ کی طرف راغب ہو رہے ہیں، لیکن جلد ہی پتہ چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور وہ دوبارہ فیس بک کی طرف لوٹ رہے ہیں.
فیس بک پہ صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی رہتی ہے، لوگ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں. شام کو جس چیز کا بڑا چرچا ہوتا ہے، اگلی صبح اس کا ذکر تک کہیں نہیں ہوتا اور اس کی جگہ ایک نئی بحث چھڑتی نظر آتی ہے. سوشل میڈیا کا خاصا ہی یہی ہے کہ یہاں چیزیں تیزی سے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں. اس سارے چکر میں البتہ ایک بات طے ہے: دنیا میں ہر کہیں فیس بک بہرحال نوجوانوں کے قبضے میں ہے، وہ ھر وقت اس پہ چھاۓ رہتے ھہں. ایک امریکی تحقیقا تی ادارے کا کہنا ہے کہ فیس بک اب بھی ہر عمر کے افراد میں مقبول ترین سوشل نیٹ ورک ہے لیکن اس کے استعمال کرنے والوں میں اکہتر فیصد تعداد ٹین ایجرز کی ہے.
فیس بک کا مشن بڑا واضح ہے، اور وہ ھے لوگوں کو اس قابل بنانا کہ وہ آزادانہ دنیا میں کسی سے بھی رابطہ کریں اور معلومات کا تبادلہ کر سکیں. آج فیس بک کی بدولت لوگ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب سے ہر وقت جڑے رہتے ہیں. دنیا میں جونہی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس سے آگاہ ہوتے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہیں، دوسروں سے شیئر کرتے ہیں اور پھر چل سو چل. اپنی انھی خصوصیات کی بنا پر فیس بک ہر کہیں جوانوں کے دل کی دھڑکن ہے
آخر دنیا میں کتنے نوجوان فیس بک استعمال کرتے ہوں گے؟ اس سوال کا صحیح جواب دینا کافی مشکل ہے. اعدادوشمار کا ایک گورکھ دھندہ ہے جو انٹرنیٹ پر بکھرا پڑا ہے. اور پھر اس پر بھی تو کسی کا اتفاق نہیں کہ جوان یا نوجوان کسے کہیں. ہر ملک اور ادارے کی اپنی ہی ایک تعریف ہے. بہرحال کریگ سمتھ نامی ایک صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا میں پندرہ سے چونتیس سال کی عمروں کے درمیان نوجوانوں میں سے 66 فیصد فیس بک استعمال کرتے ہیں. ایک اور جگہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے آدھے نوجوان ہفتے میں کم از کم ایک دفعہ فیس بک پر یہ ضرور شیئر کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں. ایک اور تحقیق کے مطابق فیس بک اور اس پر پوسٹ کی گئی چیزیں اتنی کشش رکھتی ہیں کہ دنیا کے آدھے سے زائد نوجوان صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے اپنی ٹائم لائن چیک کرتے ہیں. انسانی رویوں کو کھوجنے والے محقق بھی بعض اوقات کمال کرتے ہیں. ایک اور جگہ وہ بتاتے ہیں کہ لڑکے لڑکیاں تو فیس بک کے اتنے دیوانے ہیں کہ ان کی ایک بہت بڑی تعداد صبح بستر سے نکلنے سے پہلے اپنا فیس بک اکاؤنٹ چیک کرتی ہے کہ کیا چل رہا ہے. فیس بک واقعی اخیر قسم کی چیز ہے.
بزرگ بھی کسی سے کم نہیں
والدین کو تو چھوڑیں، دادے دادیوں اور نانے نانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد فیس بک پر موجود ہے، حلانکہ یہ تو ان کے بچوں کے کھیلنے کی جگہ ہے. فیس بک پر بزرگوں کی آمد سے ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ بعد اوقات لڑکے بالے یہاں سے غائب ہو جاتے ھہں، شاید وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بڑے جان پائیں کہ وہ یہاں کیا کرتے ہیں؟ یا پھر حقیقت میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ فیس بک انسانی تاریخ میں نوجوانوں کی وہ واحد سرگرمی ہے جس میں بزرگ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں. میرے چچا ہی کی مثال لیں وہ بھی فیس بک پر ہیں حالانکہ وہ ماضی میں رہنے والی ہستی ہیں اور انھیں بدلتے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے سے کوئی سرو کار نہیں. اسی طرح میرے ایک سابقہ پرنسپل ہیں جو کہ پچھتر سے اوپر ہیں، وہ تو فیس بک پر بہت ہی سرگرم ہیں، بلاناغہ وہ اپنے طلبہ، دوستوں اور عزیزواقارب سے رابطے میں رہتے ہیں اور اپنے پیغامات کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں. میرے ایک دوست کی والدہ نہیں جب مجھے’’ فرینڈ ریکویسٹ" بھیجی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ خالہ تو مذہبی پس منظر والی ایک گھریلو قسم کی خاتون ہیں، انھیں کیا لگائو فیس بک سے. بعد میں میں نے نوٹ کیا کہ اس طرح وہ فیس بک کے ذریعے غیر ممالک میں بسنے والے اپنی بیٹوں سے رابطے میں رہتی ہیں. سچ بات یہ ہے کے مجھے بہت اچھا لگا کہ فیس بک کے ذریعے والدین اپنے بچوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور تنہائی کا شکار نہیں ہوتے اور دکھ سکھ کی باتیں شیئر کر لیتے ہیں. یہ بڑی مزیدار بات ہے کہ بڑی عمر کے لوگ بھی نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور فیس بک جیسی ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں کیونکہ اس کا ان کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے.
شرمیلے اور تنہائی پسند افراد کی پناہ گاہ
پاویکا شیلڈن جو کہ الباما یونیورسٹی امریکہ میں کمیونیکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے ایک دلچسپ تحقیق کی ہے. وہ کہتے ہیں کہ فیس بک استعمال کرنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد شرمیلے لوگوں کی ہے، مگرفیس بک کی طاقت کا اصل سرچشمہ باتونی ٹائپ اور میل ملاپ رکھنے والے لوگ ہیں. باوجود اس کے کہ ان کے تعداد کم ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی راۓ کا اظہار کھل کھلا کے کرتے ہیں جس سے ایک بحث چل نکلتی ہے اور اس میں کئی لوگ شامل ہو جاتے ہیں، اور یوں ان میں سے کئی کو وہ اپنا ہم خیال بھی بنا لیتے ھیں. جبکہ شرمیلے لوگ از خود کم ہی کسی بحث کا آغاز کرتے ہیں البتہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی موضوع پر ان کے ہم خیال لوگ موجود ہیں تو وہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیتے ہیں. یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ فیس بک پر بھی وہی لوگ مقبول ہوتے ھہں جو حقیقی زندگی میں دوسروں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے شائقین تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے. وسکونسن یونیورسٹی امریکہ کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ حقیقی زندگی میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ فیس بک کی طرف زیادہ رجوع کرتے ہیں. یعنی جو جتنا تنہائی پسند ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ فیس بک پر پایا جاۓ گا. وسکونسن یونیورسٹی میں کمیونیکشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیون سونگ کہتے ہیں کہ تنہائی کا شکار افراد اپنے شرمیلے پن یا کمزور سماجی رشتوں کی بنا پر فیس بک میں اس لیے پناہ ڈھونڈتے ہیں تاکہ وہ اپنی ان محرومیوں کا ازالہ کا سکیں جن سے ان کا واسطہ حقیقی زندگی میں پڑتا ہے.
اگرچہ فیس بک شائقین کے حوالے سے یہ مطالعے امریکی یا دیگر مغربی ممالک کے پس منظر میں کیے گئے ہیں لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمارے ہاں بھی صورتحال بلکل ایسی ہی ہے. دیہات ہوں یا شہر ہر جگہ نوجوان لوگ فیس بک پر موجود دن رات اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں. اسکول کالج کے طلبہ طالبات ہوں یا پھر دفتروں میں صفائی والے لڑکے، ہر کوئی مارک زکربرگ ( فیس بک کا بانی) کی اس تخلیق کا دیوانہ ہے. نوجوان جہاں اپنے لیے نئے حل تلاش کر رہے ہیں وہیں ایسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جن کا آج کے بڑوں کو کوئی ادراک نہیں. دیکھنا یہ ہے کہ ہم نوجوانوں کے اس سفر میں کس حد تک ان کے معاون ثابت ہو سکتے ہیں تاکہ موج مستی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لیے ایک بھر پور اور صحت مند زندگی کی راہ بھی ہموار کر سکیں. پابندیاں لگانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ یہ ہمارے بس میں ہی نہیں ہے
تبصرہ لکھیے