" مذہبی طبقے کا اخلاقی بحران" ہی کیوں؟ شدت پسند دونوں طرف ایک جیسے ہیں، کہ اس طرح کی lower strata of جَنتا دونوں طرف برابر پائی جاتی ہے اور اخلاقی ذمہ داری بھی دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے کہ لبرلز یا سیکولر حضرات و خواتین بھی انسان ہیں اور تہذیب و اخلاق ایسی انسانی قدروں کا اطلاق ان پر بھی اتنا ہی ہو گا۔ وہ بھلے کسی خدا کے ہاں جوابدہ نہیں، مگر انسانی ضمیر، معاشرتی قدروں اور ضابطوں کے تو ہیں ہی۔ یوں، یہ ٹائٹل ناانصافی پر مبنی ہے۔ اگرچہ درونِ تحریر دونوں کا اخلاقی بحران غیر جانبداری سے ڈسکس ہوتا نظر آیا، تاہم تحریر کو یہ ٹائٹل عطا کرنا غماز ہے کہ مصنف مذہبی طبقے کو زیادہ تر قصور وار سمجھتا ہے۔
میری رائے میں ' رائٹ اور لیفٹ کا اخلاقی بحران' زیادہ مناسب عنوان بنتا۔ راقم الحروف نے یہ اعتراض کیا تو مجاہد حسین بھائی کا جواب تھا: "لبرلز اسلام کا نام استعمال نہیں کرتے اس لیے ان پر تنقید نہیں کی۔ جو لوگ اسلام کا نام استعمال کریں، ان پر زیادہ سے زیادہ تنقید ہونی چاہیے تاکہ وہ آئندہ کے لیے محتاط رہیں۔"
خاکسار کو اس سے اتفاق نہیں۔ تہذیب و اخلاق برتنے کی ذمہ داری دونوں طرف برابر عائد ہوتی ہے، اگر دونوں جانب انسان ہی پائے جاتے ہیں۔ اب ان انسانوں میں تہذیبی اور دانشورانہ غربت کا شکار جنَتا برابر ملے گی جسے برداشت کرنا اور سمجھانا ہوگا۔ اور یہ کہ اس کا الزام کسی اسلام یا لبرل ازم پر عائد نہیں ہو گا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام و دیگر مذاہب بدتہذیبی و فحش کلامی کی اجازت نہیں دیتے، اسی طرح کوئی لبرل ازم، سیکولرازم، کمیونزم، کیپیٹل ازم وغیرہ بھی بدتہذیبی ، بداخلاقی اورگالی کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ مشترک انسانی اقدار ہیں جن کے برتنے پر اتفاق ہے، جبکہ خلاف ورزی پر سخت اکراہ ۔
اوریا مقبول صاحب کی تحریر و تقریر پرابتداً جو طوفان برپا کیا گیا وہ لیفٹ ونگ کی طرف سے تھا، اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہو چکی کہ الہامی تہذیب کے بیانیے کے دفاع میں لکھی اس تحریر کے رد عمل میں سیکولر حضرات و خواتین کی جانب سے کیسی معیار سے گری ہوئی تحاریر سامنے آئیں۔ اس پہ بس نہیں ہوا۔ تمسخر کا ہرانداز اپنایا گیا۔ کیا سے کیا مواد دیکھنے کو نہیں ملا: چٹکلے، تصویریں، کارٹون وغیرہ، حتیٰ کہ سپیشل ٹاک شوز تک کا اہتمام ہوا جن میں اوریا مقبول صاحب کی ذات کو نشانہ تضحیک بنایا گیا۔۔ کچھ اس حد تک کہ خورشید ندیم صاحب ایسے main stream media کے صحافی جنھیں اوریا مقبول جان صاحب کے بیشتر دیگر خیالات سے سخت اختلاف بھی ہے، کو ایک بھاری بھرکم کالم کی تلوار سونت کر میدان میں اترنا پڑا جس میں اوریا صاحب کے بیانیے کا بھرپور دفاع کیا گیا، نیز انھوں نے اس طوفان بد تمیزی کی حوصلہ شکنی بھی کی۔
کہنا یہ ہے کہ یوں، غیر مذہبی طبقے کے اخلاقی بحران کے نمونے بھی "جا بجا بکھرے پڑے ہیں"۔
ادھر مذہبی طبقے (رائٹ ونگ) کی اخلاقی قامت کے نمونوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ جس کی چند ایک مثالیں خود خورشید ندیم، اشفاق احمد مرحوم، واصف علی واصف مرحوم، عامرہاشم خاکوانی، ہارون الرشید، ارشاد احمد عارف، خود آپ، سہیل ثاقب، طفیل ہاشمی، عرفان شہزاد و دیگران۔۔۔۔ نیزجاوید احمد غامدی، مولانا مودودی مرحوم، پروفیسراحمد رفیق صاحب، طاہر القادری صاحبان اور ان کے لاکھوں پڑھے لکھےفالوورز ۔۔۔۔ الحمدللہ، معتدل سوچ کے حامل لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یوں، مذہبی ''طبقے کا اخلاقی بحران'' والا ٹائٹل ہمیں تو ہضم نہیں ہو رہا۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد بھائی نے مجاہد حسین بھائی کے گویا دفاع میں ایک اور سوال اُٹھایا ہے کہ:
”سارے اسلامسٹ بداخلاق نہیں ہوتے، یہ درست ہے، لیکن یہ سارے بااخلاق اسلامسٹس، بداخلاق، بدگو، فحش نگار اسلامسٹس کو مقبول کیوں بنائے ہوئے ہیں؟ ان کی مذمت کیوں نہیں فرماتے؟ ان سے اعلان برات کیوں نہیں کرتے؟ ان کو اپنی صفوں میں عزت کیوں دیتے ہیں؟ یہاں اب کوئی یہ نہ کہہ دے کہ لبرلز اور ملحدین بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم سب ہی بداخلاق ہیں، لیکن مقابلہ اگر بداخلاقی بمقابلہ بداخلاقی کا ہے، کہ دیکھیں کون بداخلاقی میں زیادہ طاق ہے۔ کس کی صورت الحمیر زیادہ بلند آہنگ ہے، کس کی گالی زیادہ موثر ہے، پھر تو ٹھیک ہے، سب لگے رہیں۔ لیکن مقابلہ اگر اسلام بمقابلہ لبرلزم اور الحاد کا ہے تو کیا بداخلاقی کا جواب زیادہ بداخلاقی سے دینے سے آپ اسلام کا مقدمہ جیت سکتے ہیں؟"
بداخلاقوں کو اپنی صفوں سے "نکال باہر کرنا" ایک غیر فطری بات ہے، نا ممکن ہے۔ اس نوع کی جنتا، سطحی ذہنیت کے حامل نادان لوگ ہر مذہب اور کمیونٹی میں، ہر خطہِ زمین پر اور تاریخ کے ہر دور میں پائے گئے۔ ہمیشہ رہے، اب بھی ہیں اور سدا رہیں گے۔ جی ہاں ہم بارِ دگر ان کے ایسے لکھے اور کہے سے اعلانِ برات کرتے ہیں، مذمّت کرتے ہیں، کرتے رہیں گے۔ مثلاً، آپ، میں اور ہم سب طالبان والے اسلا م اور شدت پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔ اور تو اور، اپنے کسی پسندیدہ اسلامسٹ کی زبان اور قلم سے سرزد ہوئے کسی واحد ناشائستہ لفظ سے بھی برات کا اعلان کرتے ہیں، ہمیشہ کریں گے۔ رہی بات ایسے uncultured افراد کے موجود ہونے اور رہنے کی تو عرض گزاروں کہ یہ phenomenon تو خود رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی جاری رہا۔ ایسے کمزور ممبران ِ مسلم کمیونٹی گردوپیش میں موجود رہے۔ عبداللہ بن ابی ایسوں کو بھی نہیں چھیڑا گیا سرکارؐ نےجس کی نماز جنازہ تک پڑھا ڈالی۔ بس سمجھایا ہی جا سکتا، تربیت کی اپنے تئیں کوشش کی جا سکتی ہے۔ نہ لبرل حضرات ایسوں کو 'نکال باہر' کریں گے۔ مثلاً وجاہت مسعود صاحب خود decent لفظوں میں بات کرنے والے نفیس آدمی ہیں، تو دوسرے (فرنود عالم سمیت) اخلاق و تمیز کی حدوں کو بڑی بے دردی سے پھلانگ جانے والے بھی وہیں موجود ہیں جن کی تحاریر کو خود مجاہد بھائی نے اپنے ایک کومنٹ میں cheap sarcasm کا نام دیا۔ میں پہلے عرض کر چکا کہ lower strata of جَنتا دونوں طرف برابر پائی جاتی ہے۔ کوئی محض اسلام پسند ہے، تو اس سے وہ ولی کے درجے پر فائز نہیں ہو جاتا۔ بس انسان ہی رہتا ہے جس کے ہاں grooming یا تہذیب کی اتنی ہی قلت پائی جا سکتی ہےجتنی کسی بھی لبرل کے ہاں۔ فرق صرف کلمے کا رہ جاتا ہے اور اس بات کا کہ اس نے خدا، رسول، قرآن وغیرہ ایسی نسبتوں پر اٹھے اعتراض یا بدتمیزی کا دفاع بے صبری میں اسی نوع کے uncultured انداز میں کر ڈالا۔ خیر، بحث برائے بحث کی جائے تو اس کا کوئی سرا، کنارا نہیں۔
ماشاء اللہ بہت خوب