ترکی کی حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد جب سے جناب طیب اردوان نے سارا ملبہ امریکہ میں مقیم ترک سکالر فتح اللہ گولن پر ڈال دیا ہے، اس وقت سے پرو اردوان حلقے پورے زور شور سے گولن کو ولن قرار دے رہے ہیں۔ ترکی کے اندر اس پر مباحث تو جاری ہوں گے ، مگر پاکستانی صحافتی اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ فتح اللہ گولن کے حوالے سے ہمارے ہاں تین چار قسم کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ بعض اسے ڈاکٹر طاہر القادری سے تشبیہہ دے رہے ہیں، شائد گولن تحریک کے سکول اور تعلیمی نیٹ ورک کی بنا پر یہ مماثلت ڈھونڈی گئی ہے یا وکی پیڈیا وغیرہ میں فتح اللہ گولن کے ساتھ صوفی کا نام لکھا دیکھ کر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ گولن بھی شائد” بریلوی “ٹائپ سکالر ہیں۔گولن کے بارے میں انٹرنیٹ پر سرچ کی جائے تو بیشتر جگہوں پر انہیں ماڈریٹ یا معتدل سکالر کہا جاتا ہے۔ اس ”کامن فیکٹر “ کی بنا پر سوشل میڈیا پر بعض لوگ انہیں ترکی کا جاوید غامدی کہہ رہے ہیں۔ ایک حلقہ جو زیادہ شدت پسندانہ تعبیر کی طرف مائل ہے،سازشی نظریات ان کا من بھاتا فکری کھاجا (خوراک )ہیں۔ ان لوگوں نے فتح اللہ گولن کو فری میسن تک قرار دے ڈالا۔ یہ ویسے اتنا خوفناک الزام ہے کہ آدمی سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ فری میسن وہ بدنام زمانہ خفیہ تنظیم ہے، جس کے تانے بانے یہودیوں سے ملائے جاتے ہیں اورمبینہ طور پر یہ یہودی ہی تھے، جو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا روپ دھار کر سازشوں میں مصروف رہے ۔
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو کمال دیدہ دلیری سے کسی مسلمان کو نہایت کمزور ثبوت بلکہ مفروضوں کی بنا پر ملحد، زندیق قرار دے دیتے ہیں، ایدھی صاحب کے حوالے سے ایک نام نہاد مفتی کی ویڈیو بھی پچھلے دنوں گردش کرتی رہی، جس میںان مولوی صاحب نے ایک جگمگاتی شخصیت پر تھوکنے کی کوشش میں اپنا ہی چہرہ داغدار کر لیا۔کسی مسلم سکالر کو فری میسن قرار دینے کے لئے تو اس سے بھی زیادہ ”جرات“درکار ہے ۔اللہ ایسے بھیانک الزامات لگانے والوں کو ہدایت دے ۔ ہم مختلف شخصیات، گروہ، تنظیموں یا نظریات کے بارے میں اپنے آرا بناتے ہیں،مگر اپنی رائے کو اس خوفناک قطعیت سے پیش کرنا مناسب نہیں۔ کسی بھی دوسرے مسلمان کو ، خاص طور پر جب و ہ دینی ، دعوتی کام میں مصروف ہے اور برملا ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے، اسے حسن ظن کی رعایت ضرور دیں۔ گولن موومنٹ یا حذمت تحریک کے لوگ البتہ پاکستان میں بھی موجود ہیں اور جیسا کہ میں نے پچھلی نشست میں عرض کیا کہ اتفاق سے تین چار سال پہلے ایک صحافتی وفد کے ساتھ مجھے بھی استنبول جانے اور اس تحریک کے مختلف پہلوﺅں، پراجیکٹس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کے ساتھیوں کے ساتھ ایک ہفتہ سفر میں گزرا، گھنٹوں گپ شپ اور ڈسکشن میں رہے، پاکستان میں ان کے سکول موجود ہیں۔گولن صاحب پر لکھنے والے صحافیوں یا سکالرز کو میرا مشورہ ہے کہ وہ پہلے یہاں لاہور ، اسلام آباد میں موجود ترکوں سے بھی مل لیں، رومی فورم کا وزٹ کر لیں۔پنجاب یونیورسٹی میں اردو سیکھنے کے لئے بعض ترک طالب علم یہاں مقیم ہیں، ان سے گپ شپ کریں اور ان کا نقطہ نظر بھی جانیں۔ میرا انٹرایکشن اگرچہ محدود سا ہی ہے ، مگر بہرحال کچھ نہ کچھ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن حاصل ہوئیں جو وکی پیڈیا یا نیٹ کے کسی اور سورس کی نسبت زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ جو کچھ دیکھا، جو سمجھ میں آیا، ان کالموں کا مقصد اس تاثر کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے۔ واللہ اعلم ۔
فتح اللہ گولن کو ڈاکٹر طاہر القادری سے ملانا قطعی طور پر مناسب اور درست نہیں۔ قادری صاحب بنیادی طور پر ایک خطیب اور عالم دین ہیں، جلد ہی وہ سیاست میں آگئے ، ایک سیاسی جماعت کے وہ باقاعدہ سربراہ ہیں، رکن اسمبلی بھی رہے ، اقتدار میں آنے کے خواہش مند ہیں، عوامی انقلاب کے ذریعے عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار ہیں ،پاکستانی صحافتی حلقوں میں ان کا تاثر ایک بڑ بولے، سیاسی کرتب دکھانے والے شخص کا ہے، جس کی کریڈیبلٹی نہ ہونے کے برابر ہے ، ان کے خواب یا ”مکاشفات “کا ہمارے ہاں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور وہ مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ فتح اللہ گولن مکمل طور پر غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ کبھی سیاست میں آئے ، نہ ہی ان کا کوئی ایسا ارادہ ہے۔ ان کی حذمت تحریک ایک غیر سیاسی تنظیم ہے، جسے وہ غیر سیاسی ہی رکھنے کے دعوے دار ہیں۔ حذمت تحریک کے لوگ الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیتے۔ کسی بھی الیکشن کے موقعہ پر فتح اللہ گولن نے کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا۔ استنبول میں ترکوں سے ہم نے پوچھا کہ گولن صاحب کوئی سیاسی پوزیشن کیوں نہیںلیتے۔ ان کا جواب تھا چونکہ ہم لوگ سماجی کام کر رہے ہیں، اس لئے گولن کا خیال ہے کہ حکومتیں بدلنے سے سماجی تحریک کو نقصان نہ پہنچے ۔ ایک انٹرویو میں گولن سے یہی سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اپنے کسی پڑھنے والے یا دوست کو یہ کہنا کہ فلاں جماعت کو ووٹ دیا جائے، میں ان کی عقل اور ذہانت کی توہین سمجھتا ہوں۔ یہ فیصلہ ہر ایک کو خود کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ میں یہ کہتا اور لکھتا ہوں کہ اچھے، دیانت دار اور اہل لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔
مزے کی بات ہے کہ فتح اللہ گولن کو صوفی کہا جاتا ہے، مگر یہ ہماری طرز کے صوفی یا بریلوی طرز فکر کا معاملہ نہیں۔ ترکوں کا صوفی ہونا دراصل ان کا یہ بتانا ہے کہ ایسا شخص رواداری، برداشت اور تحمل پر یقین رکھتا ہے۔ استنبول کے سفر میں ایک ترک گائیڈ سے میں نے پوچھا کہ فتح اللہ گولن صاحب نے آپ لوگوں کو کوئی مخصوص وظیفہ وغیرہ بتایا ہے ، جس کا ورد کیا جاسکے یا کچھ اور۔ ترک ساتھی نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ وظائف، ذکر خفی یا جلی یا مراقبہ جات وغیرہ کچھ نہیں۔ فتح اللہ گولن البتہ نماز پنجگانہ کی ادائیگی ، تلاوت قرآن اور کلام اللہ کو سمجھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ، عبادت میں خضوع وخشوع ہواور مسنون دعائیں مانگنی چاہئیں جو رسول اللہ ﷺ سے روایت ہیں۔ یہ سن کرخاکسار کو خاصی مایوسی ہوئی، جو اس چکر میں تھا کہ چلو ترک صوفیوں سے کوئی مجرب وظیفہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس لئے جو فتح اللہ گولن کو بریلوی سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ میرے جیسے لوگ تصوف سے اپنی دلچسپی کی وجہ سے گولن کی حمایت کر رہے ہیں، انہیں فی الفور اپنا خیال بدل دینا چاہیے ۔
فتح اللہ گولن کو جاوید احمد غامدی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ غامدی صاحب کا ہم احترام کرتے ہیں،علمی شائستگی ، حلم اورمہذب انداز تکلم ان پر ختم ہے ۔ غامدی صاحب مگر ہمارے ہاں متنازع اس لئے ہوئے کہ انہوں نے کئی معاملات میں اپنی وہ رائے بنائی جو پچھلے چودہ سو سالہ مسلم فکر سے مختلف تھی۔ غامدی صاحب کے تفردات کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں،جن پر ہمارے روایتی دینی حلقے ان سے شدید اختلاف کرتے ہیں۔ فتح اللہ گولن کے ایسے کوئی تفردات نہیں ہیں۔ ان کی فکر کی تعبیر وتشریح پر ترک حلقوں میں کچھ اختلاف نہیں ۔ انہیں معتدل سکالر صرف اس لئے کہا اورمانا جاتا ہے کہ وہ برداشت اور رواداری کے قائل ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی مکالمہ کے حامی ہیں، پوپ سمیت دیگر مذاہب کے رہنماﺅں سے مل بھی چکے ہیں اور ان کے خیال میں دیگر مذاہب کے سامنے اسلام کا مقدمہ دلیل کے ساتھ رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ہاں امریکہ میں مقیم رہنا ان کا جرم ضرور ہے، مگر یہ” گناہ “ تو ہمارے ہاں کے بے شماردینی، علمی لوگوں سے سرزد ہوا ہے، ان سب پر بھی غیر محب وطن اور امریکہ کا یار ہونے کا الزام لگا دیا جائے ؟ ترک فوجی ڈکٹیٹروں کے گولن مخالف رہے ہیں بلکہ انہوں نے ترکی کے سخت گیر سیکولر معاشرے میں رہ کر دینی تعلیم وتربیت کا راستہ نکالا ۔ سیکولر حلقے ان کے مخالف رہے ہیں، ان پر قاتلانہ حملے ہوئے، جن کے بعد ان کو امریکہ جانا پڑا ۔ ان کی عدم موجودگی میں ترکی کی سیکولر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے دباﺅ پر انہیں سزا بھی سنائی گئی جو برسوں بعد میں طیب اردوان کی وجہ سے ختم ہوئی ۔
فتح اللہ گولن اور طیب اردوان میں تصادم کیوں ہوا اور یہ معاملہ کس رخ جا رہا ہے، اس پر اگلی نشست میں بات ہوسکتی ہے۔ بات طویل ہوگئی، مگر اس کے بغیر پوری طرح سمجھنا شائد ممکن نہ ہوتا۔
تبصرہ لکھیے