ہوم << تاریخ کا جبر - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

تاریخ کا جبر - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1096_96255163مسلمانوں کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ان دنوں خاص موقع ہے کہ تاریخ کے اس جبر کو سمجھ سکیں جس کا خالق تاریخ نویس ہوتا ہے اور جس کی نذر نسلوں کی نسلیں ہو جاتی ہیں۔
ترکی میں وقوع پذیر واقعات کے متعلق آج کے دن موجود کم ہی لوگوں کو اشکال ہوگا کہ یہ بنیادی طور پر اقتدار کی رسہ کشی ہے جو اب بڑھ کر ٹکراؤ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تاہم جب آپ صدر اردوان یا جناب فتح اللہ گولن صاحب کے کیمپوں کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو معاملہ ہیرو اور ولن کی جنگ کا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر دو کیمپ کا ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ ظاہر ہے، ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ، سیدھا حساب۔
بات یہاں تک بھی رہے تو کوئی مسئلہ نہیں کہ ہر کشمکش کم و بیش اسی پیرائے پر استوار ہوتی ہے، لیکن ایسا نہیں۔ معاملات پھر اسی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں جہاں اسے حق و باطل کے معرکہ میں بدل دیا جائے۔ اردوان صاحب کے حامی دلائل کے انبار لگا رہے ہیں کہ وہ تو خیر خواہی اور امید کی واحد باقی شمع ہیں جو اگر بجھ گئی تو ہر سو باطل کا اندھیرا چھا جائے گا۔ سب جانتے ہیں باطل کا وہ اندھیرا کون ہے ۔ جی نہیں وہ سیکولر طاقتیں نہیں۔ فی الحال یہ کام گولن صاحب کو سونپ دیا گیا ہے۔ دوسری جانب گولن صاحب کے کیمپ والے انھیں ایک درویش صفت انسان راسخ العقیدہ مسلمان بتا رہے ہیں جو دنیا داری کے جھمیلوں سے خود کو بچائے ہوئے ایک بدعنوان اور حریص حکمران کے خلاف اپنی قومی اور مذہبی ذمہ داری نبھا رہا ہے، اور بس۔
حق و باطل کا فریم ورک قائم ہو جانے کا مطلب ہے کہ اب تقسیم کے باقاعدہ اور مستقل ہو جانے کے امکانات روشن ہو گئے۔ اس مقدمہ کو قائم کرنے میں متحارب قوتوں سے بھی زیادہ رول ان خیر خواہوں کا ہوتا ہے جو تقدس کی چادر سے سارے معاملے کو لپیٹ دیتے ہیں۔ یہی وقائع نگار ہوتے ہیں جن کا لکھا بعد والے پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں (ایک دوسرے کا)۔ آج جو بھی ان واقعات کا عینی شاہد ہے وہ ان کی بنیاد سے آگاہ ہے۔ لیکن آئندہ کل جو لوگ اس کے متعلق پڑھیں گے ان کی بصارت اور پھر بصیرت پر آپ ہی آپ وہ چشمہ فٹ ہو جائے گا جس گروپ کا بیان اس کے ہاتھ آئے گا۔ عصبیت کا سفر ابدی ہو جائے گا۔
دوسری جانب ، اگر ایسا کچھ نہ کرنا ہو تو اس کی بھی ایک مثال ہمارے ہاں موجود ہے۔ ایران میں سابق صدر جناب محمود احمدی نژاد صاحب کا دوسرا الیکشن دھونس دھاندلی کا ایک شاہکار تھا جس پر ایران کے اندر بھی خوب احتجاج ہوا اور باہر بھی اس پر تنقید ہوئی ۔ لیکن چونکہ نظم قائم رکھنا مقصود تھا اس لیے حق و باطل کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور سب گرد بیٹھ گئی، گو تقسیم اور "حق و باطل" کی خاصی گنجائش یہاں بھی موجود تھی لیکن اس پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی گئی۔
گویا یہی دو آپشنز ہمیشہ سامنے ہوتی ہیں کہ معرکہ یا سمجھوتہ اور جو فیصلہ ہو وہی بعد والوں کے لیے حقیقت اور ویسی ہی تاویلات۔
ان مثالوں سے کچھ نا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تاریخی واقعات کی بنیاد پر عصبیت یا عقائد کو استوار کرنا ایک نازک مسئلہ ہے. کیا واقعہ ہوا؟ اس کی اصل کیا تھی؟ رپورٹ کس طرح ہوا اور کتنا ہوا؟ یہ سب باتیں اپنے اندر اتنا بڑا "اگر" لیے ہوئے ہیں کہ اس کی بنیاد پر دائمی نفرتوں کا فیصلہ کر لینا دانشمندانہ قدم نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے متعلق جتنا بھی محتاط رویہ اپنایا جائے کم ہے کیونکہ تاریخ لکھنے والے ہاتھوں کی وجہ سے قوموں کے اتحاد میں وہ گرہیں پڑجاتی ہیں جو پھر بعد میں آنے والوں کے دانتوں سے بھی نہیں کھلا کرتیں۔