ہوم << 1857 اور طوفان الاقصیٰ! محمد عرفان ندیم

1857 اور طوفان الاقصیٰ! محمد عرفان ندیم

’’1857 اور طوفان الاقصیٰ‘‘کے نام سے یہ کالم میں نے 27 نومبر2023 کو لکھا تھا جب طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف پچاس دن ہوئے تھے۔ اس وقت دور دور تک اس معرکے کے حتمی نتائج کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا اور تجزیہ کار حماس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور اہل فلسطین کی تباہی و بربادی کے نوحے لکھ رہے تھے ۔ تب میں نے لکھا تھا کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں1857اور 7اکتوبر2023 جیسے واقعات ضرور آتے ہیں اوریہی واقعات کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ 7اکتوبر 2023کے اقدام کا فیصلہ تاریخ نے کرنا اور آج 470دن گزرنے کے بعد تاریخ کا فیصلہ8 ارب انسانوں کے سامنے بکھرا پڑا ہے ۔ اس فیصلے کے مزید نتائج آنا ابھی باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کی شکست کو تسلیم کر چکا ہے اور حماس واہل فلسطین کے جذبوں نے دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کوحیرت میں مبتلا کردیا ہے ۔

میں پرانی تحریر کو دہرانے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں لیکن نئی خامہ فرصائی سے بہتر تھا کہ تاریخ کی گواہی کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے ۔
1857کا معرکہ تاریخ کے صفحات پر کس نام سے درج ہے غدر یا جنگ آزادی؟ اگر یہ سوال 1857یا اس سے ایک دو سال بعد کیا جاتاتو شایدکسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہ ہوتا لیکن آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد تاریخ اس قضیے کو طے کر چکی ہے ۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ یہ معرکہ صرف معرکہ نہیں بلکہ یہ تحریک پاکستان کی شروعات تھی۔ یہ معرکہ صرف معرکہ یا غدر نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی منظم کوشش اور پہلی جنگ آزادی تھی۔مؤرخ ، جج، صحافی، تجریہ کار، سیاستدان، عالم دین اور برصغیر میں رہنے والا عام انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے اگر برصغیر کی تاریخ میں 1857نہ آتا توشاید ہندوستان آج بھی سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ہوتااور شاید آج پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ ملک بھی نہ ہوتے ۔1857کے حوالے سے آج تک جتنا لٹریچر شائع ہوا سب میں اسے جنگ آزادی کا عنوان دیا گیا ۔اگرچہ تاریخ میںکچھ ایسے کردار بھی سامنے آئے جنہوں نے اس معرکے کو جنگ آزادی کی بجائے غد ر کا عنوان دیا مگر تاریخ نے ان کرداروں اور ان کے دیے گئے عنوانات کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی ۔مثلا سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کے بانیوں میں سے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی قربانیوں اور دردمندی کا زمانہ گواہ ہے مگر ان کے نامہ اعمال میں ایک غلطی ایسی تھی جو ہر عہد میں نمایاں رہی اور نہ جانے کب تک ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔

1857کا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سر سید احمد خان قلم کاغذ تھام کر اس کے اسباب لکھنے شروع ہوگئے۔ انہوں نے 1857کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دے دیا اور رسالہ ــ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر برطانوی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں شروع کر دی ۔ انگریز ان کی کوششوں سے تو مطمئن نہ ہوا البتہ اس نے چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرناشروع کر دیا ۔ سر سید احمد خان نے اپنے تئیں معاملات کی توجیہ اوروضاحت پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ انتہا پر چلے گئے اوراس انتہاء پر پہنچ کر ان سے وہ غلطی ہوئی جو تاحال ان کا پیچھا کر رہی ہے اور نہ جانے کب ان کے نامہ اعمال میں کھٹکتی رہے گی ۔اس غلطی نے بہت سارے اہل علم کوان کے بارے میں سوء ظن مبتلا کر دیا ۔بہر حال ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف ، سر سید احمد خان ہوں یا کوئی اور جس نے بھی1857کی جنگ آزادی کو غدر کا عنوان دیا تاریخ نے ان کو پذیرائی نہیں بخشی ۔

قومو ں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب انہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے سامنے سرنڈر کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے غلامی کے طوق کو قبول کرنا ہے یا اپنی مقدور بھر طاقت جمع کر کے آزادی کے بھجتی چنگاری کو سلگاتے رہنا ہے ۔اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جو کیا اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندوستان کے لیے 1857کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے 1857کو نکال دیا جائے تو ہندوستان کے پاس کچھ نہیں بچتا اوراگر 1857نہ ہوتا تو آج ہندوستان کا وجود اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا ۔اسی طرح اگراہل فلسطین کی تاریخ میں سات اکتوبر نہ آتا تو آج ان کا بیانیہ معدوم ہو چکا ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اسرائیل کے قیام کو جواز بخش چکی تھی، مسلم ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرچکے تھے بلکہ سعودیہ اور یو ای اے جیسے ممالک میں باقاعدہ آمدو رفت شروع ہو چکی تھی ، کئی ممالک میں سفارت خانے فعال ہو چکے تھے اور پاکستان جیسے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا بیانیہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو تاریخ کے صفحات سے محو کیا جا رہا تھا ۔ ایسے میں حماس نے الاقصیٰ نامی طوفان برپا کر کے یہ اعلان کر دیا کہ وہ یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے ۔حماس اور اہل فلسطین کو اندازہ تھا کہ اس کی انہیں قیمت چکانی پڑے گی ، آج وہ یہ قیمت چکا رہے ہیں مگر وہ تاریخ اور اپنے عہد میں دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں ۔ ان کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور وہ ممالک جو ڈیڑھ ماہ پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین تھے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ اہل فلسطین کے لیے یہ فیصلہ اور یہ لمحات مشکل تو ہیں لیکن زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے طوق کو قبول کرنے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہیں ، یہی سب کچھ 1857 میں ہوا تھا اوریہی فیصلہ اہل فلسطین نے کیا ہے ۔

1857 میں بھی مصلحت پسندوں نے کہا تھا کہ سلطنت برطانیہ جیسی منظم طاقت سے ٹکرانا کوئی عقل مندی نہیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی اس عہد کی عقل مندی تھی ۔قوموں کے بعض اقدامات کا فیصلہ وقت نہیں تاریخ کرتی ہے اور1857کے اقدام کے درست ہونے کی گواہی آج تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے ۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور اہل فلسطین کو اس سے جوفوائد حاصل ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے اور تاریخ زندہ قوموں کے ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں بہت سارے مصلحت پسندوں نے حماس اور اہل فلسطین کو مطعون کیا ، انہیں اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے تئیں یہ فیصلے صادر کیے کہ اہل فلسطین کو اس جنگ سے سوائے لاشوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اہل فلسطین کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہئے تھا ، انہیں علم ہونا چاہئے تھا کہ یورپ و امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں ۔ اہل فلسطین صبر کرتے اور جب تک اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی اور جنگی صلاحیت حاصل نہ کرلیتے اس جنگ میں نہ کودتے ۔

ایسے مصلحت پسند1857 میں بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور تاریخ کے ہر موڑ پر غلط ثابت ہوئے ہیں ۔ جنگیں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے نہیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور اہل فلسطین نے یہ جنگ جیت لی ہے ۔ انہوں نے اس جنگ سے وہ حاصل کر لیا ہے جواسرائیل اور اس کے ہمنوا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پرفوجی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت آشکار ہو ئی ہے ۔ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے اور فلسطینی بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے ۔ زندہ قوموں کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے اتنے خطرات مول لینے پڑتے ہیں ۔ اگر چند ہزار فلسطینیوں کی شہادت سے اہل فلسطین کا بیانیہ از سر نو زندہ ہو گیا ہے اوردنیا اسرائیل کے بارے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں ۔ سات اکتوبر 2023کا دن اہل فلسطین کے لیے1857 کی حیثیت رکھتا ہے اور 1857 کی برصغیر پاک وہند میں کیا حیثیت ہے اس سے ساری دنیا آگاہ ہے ۔