وزیر اعظم نواز شریف کی ٹانگ میں انفکشن ہے۔ ڈاکٹر علاج کر رہے ہیں۔اسلام آباد آنا اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر امورِ مملکت چلانا فی الحال ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں علاج کے لیے پھر لندن جانا پڑے۔پوری طرح ٹھیک ہو نے بعد ہی وہ دارالحکومت میں آکر وزیرِ اعظم ہاؤس کو رونق بخشیں گے۔ہمیں اسلام آباد اور رائے ونڈ کی آب و ہوا میں فرق کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ جنابِ وزیر اعظم کا اسلام آباد میں لاہور جیسا علاج کیوں ممکن نہیں اور ان کے انفکشن پر اسلام آباد کی آب و ہوا کے کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں؟اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں جلد شفایاب کرے۔سوال یہ ہے کہ اگر خُدا نخواستہ وزیرِاعظم کی ٹانگ کی تکلیف ٹھیک ہونے میں بات دنوں اور ہفتوں سے گزر کر مہینوں تک چلی گئی تو کاروبارِحکومت اسی طرح ایڈہاک بنیادوں پر چلتارہے گا؟ اور اگر ایڈہاک طرز پر آسانی سے چل سکتا ہے تو پھر لوگ سوچنے ہی نہیں ، کہنے لگیں گے کہ وزیر اعظم کے منصب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کسی اسحاق ڈار کو کام سونپ دیں، کام چلتا رہے گا۔
یہ صورتِ حال ان ملکوں اور معاشروں میں ہوتی ہے جہاں نظام کسی زرّیں آدرش اور اصول سے خالی ہوتا ہے اور اسے مستحکم اقدار اور مضبوط اداروں کے بجائے طاقتور شخصیات اور خاندانوں کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں کچھ خاندانوں اور شخصیات کی جاگیریں ہیں۔ملکہ برطانیہ کا ولی عہدبیٹا اب خود بڑھاپے کی سنجیدہ سرحدوں سے بھی آگے جا رہا ہے لیکن وہ جیتے جی تخت سے اترنے اور تاج سے دسر بردار نہیں ہو رہی ہیں۔ہمارے ہاں بھی ’شاہی ‘ سیاسی خاندانوں میں در پردہ یا علانیہ ولی عہد تو مقرر ہو جاتے ہیں لیکن شاہانِ معظّم ’تخت‘ اسی وقت چھوڑتے ہیں جب عزرائیل ان کے دروازے پر آ کر دستک دیتے ہیں۔ یہ ولی عہدوں کی اپنے طرز کی سیاسی تربیت تو کرتے ہیں مگر سیاسی جاگیر جیتے جی وہ ان کے سپرد بھی نہیں کرتے۔بلاول کی تاج پوشی نہیں ہوئی ہے مگر شہنشاہِ معظم کے لیے چونکہ راج دہانی میں کچھ ’ سنجیدہ مسائل ‘ پیدا ہو گئے تھے اس لیے پرجا کو ولی عہد کی ماتحت چھوڑ گئے، راج لاج مگر ابھی تک اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔جب چاہتے ہیں وزرا کو دوبئی یا لندن طلب کر لیتے ہیں۔
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ’راجہ جوگی کس کے مِیت ‘ یعنی بادشاہ اور فقیر کسی کے دوست نہیں ہوتے، یہاں یہی معاملہ ہے۔کسی پر اعتماد نہیں ہے۔زرداری صاحب نے راج دلارے پر بھی اپنی بہن کو نگران مقرر کر رکھا ہے اور جناب وزیر اعظم اپنے بہت سے پرانے وفاشعارساتھیوں کو نظرانداز کر کے کاروبارِ مملکت اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے ذریعہ چلانا چاہتے ہیں۔لیکن ان کے اوپر بھی ان کی صاحبزادی کی کڑی نظر ہے۔اسحاق ڈار لاہور کی داتا دربار سمیت کئی مسجدوں اور مزاروں کی انتظامی کمیٹیوں کے عہدہ دار بتائے جاتے ہیں۔تسبیح ہر وقت ہاتھ میں رکھتے ہیں۔وزیر اعظم حج عمرہ کے لیے جب حرمَین شریفَین جاتے ہیں،یہ موقع ضائع نہیں کرتے۔ہمیشہ ساتھ، اتنے ساتھ جیسے وزیر اعطم کے بائیں کندھے والے فرشتے کی طرح کی کوئی پراسرار ڈیوٹی دے رہے ہوں۔وزیر اعظم کو عبادت اور ذکر و دعا کے لیے تخلیہ میں نہیں چھوڑتے ۔
لیکن انسانوں کے دل تسبیح گردانی اور ورد وظیفہ سے نہیں بلکہ زبان کی مٹھاس اورعاجزانہ مزاج اور ملنساری جیسے اخلاقی اوصاف سے جیتے جاتے ہیں۔پارٹیاں مذہبی ہوں یا سیاسی،ڈسپلن ان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ڈسپلن اصول و قواعد کی پابندی کا نام ہے اور یہ جتنا کارکنوں اور ارکان کے لیے ضروری ہوتا ہے اس کی زیادہ ضرورت قائدین کے لیے ہوتی ہے کہ وہ اعلی اصولوں اور بلند اخلاقی قدروں کا قابلِ تقلید نمونہ ثابت ہوں۔اسحاق ڈار صاحب کا کیسہ اس سرمائے سے تہی بتایا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ارکانِ اسمبلی سے ان کے برتاؤ میں رعونت اور تکبّر جھلکتاہے۔
بجٹ بنانا اور چیز ہے اور بجٹ پاس کرانا پارٹی ڈسپلن سے تعلق رکھنے والی ایک اورچیز ہے اور پارٹی ڈسپلن قیادت کے برتاؤ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ارکان اسمبلی کی زبانیں اور ووٹ کے لیے اٹھنے والے ہاتھ تواٹھارھویں ترمیم کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں لیکن دل کسی رسی سے نہیں باندھے جا سکتے۔ بابر اعوان دل سے ننانوے فیصد تحریک انصاف کے ہو چکے ہیں ۔سینیٹ کی نشست کو نہ خود چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ پارٹی انہیں فارغ کرنا چاہتی ہے۔اٹھارھویں ترمیم کی رسی سے بندھے ہونے کی وجہ سے پابند ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پالیسی سے انحراف نہ کریں۔پارٹی انہیں نکالتی اسی لیے نہیں ہے کہ ان کی خالی نشست پراپنے کسی اور بندے کو جتوانا ممکن نہیں۔اگر سینیٹ کی نشست عزیز ہے تودل پی ٹی آئی کو دے بیٹھنے کے باوجود وہ پیپلز پارٹی کی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ نہیں دے سکتے۔دل عمران خان کی مٹھی میں اور ووٹ زرداری کی مٹھی میں ہے۔
اب کی بار بجٹ کی مہم وزیرِ اعظم کی غیر موجودگی میں سر آ پڑی۔ اسے پاس کرانے کے لیے کم از کم اپنی پارٹی کے ارکانِ اسمبلی پر کچھ اخلاقی اثر اور پارٹی میں نظم و ضبط تو ہونا چاہیے تھا۔ قبلہ ڈارسمجھ رہے تھے کہ وزیر اعظم کے سمدھی ہونے کے باعث تمام ارکان اسمبلی ان کے اشاروں پر ناچیں گے۔لیکن ہوا یہ کہ ارکانِ اسمبلی کی اکثریت ان کی بجٹ تقریر اور دیگر چیخ و پکار سننے پر آمادہ نہیں تھی۔انہوں نے ارکان کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا اس کا بھی اکثر نے بائیکاٹ کیا۔حمزہ شہبازقومی اسمبلی کے رکن ہیں لیکن مہینہ بھر میں کہیں ایک آدھ بار ہی اسمبلی میں آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا election ikon by-ہیں۔ پنجاب میں کم و بیش تمام ضمنی انتخابات اسی نوجوان کی محنت اور کوشش اور شخصی جاذبیت کے بل پر جیتے گئے تھے۔بجٹ پاس کرانے کے لیے نہ ڈار کی چرب زبانی کام آئی ،نہ مریم کے ٹوٹر۔ پارٹی ارکان کو قابو میں رکھنے کے لیے آخر حمزہ شہباز کو تین دن اسمبلی میں بیٹھنا پڑا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی ان کی کمک مطلوب تھی لیکن وہ جا کر لندن میں بیٹھ گئے۔
جمہوریت پارٹی کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔جن ملکوں کی جمہوریت کی ہم نقل کرتے ہیں وہاں سیاسی پارٹیاں اصولوں اور قواعد کے مطابق چلتی ہیں ۔پارٹی لیڈر سے لے کر عام کارکن تک سب ان اصول و قواعد کے پابند ہوتے ہیں تو نظام میں خلل نہیں آتا۔برطانیہ میں تاج تو ملکہ الزبتھ کے سر پر ہے لیکن حکومت سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔لیڈر متبادل قیادت تیار کرتے ہیں اور اختیارات سنبھالنے کے لیے جوہرِ قابل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ برطانیہ میں چند سال قبل تک لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ ٹونی بلیئرنے اپنی پالیسیوں پر سخت کی وجہ سے وزارتِ عظمیٰ چھوڑی تو ابھی حکومت کی مدت باقی تھی۔ اس مدت کے لیے گولڈن براؤن نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ پارٹی میں نہ کوئی فارورڈ بلاک بنا اور نہ ہارس ٹریڈنگ کی کوئی صورت حال رونما ہوئی۔ مدتِ حکومت پوری ہونے پر انتخابات ہوئے۔ کنزرویٹو پارٹی کے قائد ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم بن گئے۔ حال ہی میں ایک ریفرنڈم میں ایک اہم مسئلے پران کے موقف کی عوام نے تائید نہیں کی۔ ریفرنڈم میں شکست کھانے پر کیمرون نے ذاتی طور پرمحسوس کیا کہ اخلاقی اور جمہوری اصولوں کی روشنی میں وہ وزیرِ اعظم کے منصب پر برقرار رہنے کا جواز کھو بیٹھے ہیں ۔انہوں نے اپنا منصب چھوڑ دیا اور اسی پارٹی کی خاتون رہنما ٹریسے مے نے بقیہ مدت کے لیے وہ منصب سنبھال لیا۔نہ ٹونی بلیئر نے اپنے آپ کو ناگزیر قرار دیا اور نہ ڈیوڈ کیمرون نے سوچا کہ وہ نہیں رہے گا تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔یہاں نہ میاں نواز شریف نے پارٹی کے اندر کوئی قابلِ اعتماد متبادل ابھرنے دیا، نہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی سیاسی تدبّر ، عقل و فراست ، سیاسی اخلاقیات اور اصولوں کی پاسداری میں ان سے بہت بہتر ہو سکتا ہے۔جب سیاست کے عجائب خانہ کی ساری مورتیاں احساس و شعور کے حوالے سے یکساں ہیں اس نوعیت کے بحران تو پیدا ہوں گے جیسا جناب نواز شریف کی بیماری کی صورت میں حکومتی سطح پر نظر آ رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے