فوجی بغاوت کے بعد سے طیب اردگان نے نہ صرف فوج بلکہ پولیس، ججوں، بیوروکریٹس اور محکمہ تعلیم میں بھی صفائی کا ہفتہ منانا شروع کر دیا ہے اور ہمارے خیال میں ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے، چاہے وہ کچھ بھی ہوں۔ طیب اردگان جس قدر صفائی پسند واقع ہوئے ہیں، ان سے یہی امید تھی کہ وہ گند کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اپنی اسی طبیعت کی وجہ سے تو وہ 1996 میں استنبول کے کامیاب ترین میئر قرار پائے تھے اور اپریل 2016 میں جا کر اردگان کی حکومتی پارٹی کے اسپیکر اسمبلی نے پہلی بار اعلانیہ اپنا ایجنڈا یہ بھی بیان فرمایا کہ ہم مسلمان ملک ہیں اور ہم اپنے ملک میں آئین کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے بعض دوستوں کے اعتراض کا تعلق ہے جو انھیں اردگان کی صفائی مہم پر ہے، تو ان کے جواب میں عرض یہ ہے کہ اگر فوجی بغاوت کامیاب ہو جاتی تو کیا فوج اردگان کے حامیوں کو سیلوٹ مارتی، انہیں پھول بوٹے لگاتی، ترقیاں عطا کرتی، امریکہ کے ویزے لگا کر دیتی؟ یہ تو شکر کریں کہ اردگان حکومت ہے جو صرف معطلی پر اکتفا کر رہی ہے، اگر مصر کی طرح فوجی بغاوت کامیاب ہو جاتی یا حسینہ واجد جیسی سیکولر جمہوری حکومتیں ہوتیں تو اردگان کے سارے حامی نہ صرف معطل ہوتے بلکہ جیلوں میں قید ہوتے، تشدد کیے جاتے، قتل کیے جاتے، پھانسیاں دیے جاتے، پتہ نہیں کیا کیا، کیا جاتا اور دنیا خاموش رہتی، لبرل بھی اور میڈیا بھی، اور وہ ڈاڑھی والے بھی ساری نصیحتیں بھول چکے ہوتے جو غلط فہمی میں اپنے آپ کو اسلام پسند سمجھتے ہیں۔
جو اپنے آفس کے چپڑاسی کو دبانے کی ہزار دلیلیں رکھتے ہیں، انہیں اردگان پر اعتراض ہے کہ وہ بغاوت کی حمایت کرنے والوں کو دبا کیوں رہا ہے؟ کمال ہے۔۔۔۔ دوسری طرف مغرب کو دیکھیں، کہ یورپی یونین نے اردگان سے سختی سے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کرنے والے قیدیوں کو پھانسی نہ دی جائے، حالانکہ ان کی وجہ سے تین صد لوگ قتل ہوئے، اور انسانی حقوق کے چیئرمین کہہ رہے ہیں کہ ہم جیلوں تک رسائی حاصل کر کے قیدیوں کی صورت حال دیکھیں گے کہ ان کے حقوق پورے کیے جا رہے ہیں یا نہیں؟
ہمیں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسلام میں قیدیوں کے حقوق ہیں لیکن اس وقت تمھاری ان نصیحتوں پر دو حرف بھیجنے کو دل کرتا ہے جبکہ مصر میں فوج ہزاروں کو قتل کر دیتی ہے، سینکڑوں کو پھانسی لگا دیتی ہے، بنگلہ دیش میں سیکولر جمہوری حکومت سینکڑوں کو تختہ دار پر لٹکا دیتی ہے لیکن تمھاری آواز بھی نہیں نکلتی کہ وہ مرنے والے اسلام پسند ہیں، لیکن جب تمہارے بھائیوں کی باری لگتی ہے تو تمھیں مذہب، انسانیت، اخلاقیات، حکمت، مصلحت معلوم نہیں کیا کیا یاد آجاتا ہے۔ چپ کر کے پڑے رہو۔۔۔۔۔ اللہ میاں باریاں لگا رہے ہیں، اسلام پسندوں نے اگر صبر کر لیا ہے تو تم بھی تھوڑا حوصلہ کر لو، کوئی مر نہیں جائو گے اتنی سی سختی سے، کہ اللہ میاں نے تمہیں بھی قیامت تک باقی رکھنا ہے، کہ اس کا یہی وعدہ ہے شیطان سے
تبصرہ لکھیے