جب سیاسی پارٹیاں مضبوط اور ڈسپلن کی پابند ہوں تو شخصیات کے آنے جانے سے نظام میں خلل نہیں پڑتا۔ ٹونی بلیئر حکومت کرتے کرتے مستعفی ہو گیا تو لیبر پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی تھی گولڈن براون نے بطور وزیر اعظم چارج سنبھال لیا تھا اور کنزرویٹو پارٹی کا وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ایک ریفرنڈم ہار گیا تو پارٹی کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی پارٹی کی خاتون رہنما تھریسا مے نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا۔
یہاں اپنے ہاں وزیر اعظم نواز شریف کی صحت ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہے لیکن وہ بستر پر لیٹے لیٹے وزارت عظمیٰ چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں نہ پارٹی میں کسی دوسرے آدمی پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمارے ملک کے جدی پشتی سیاست دان کسی کو متبادل کے طور پر ابھرنے دیتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر بادشاہتیں ہیں۔ پارٹی سربراہ جو فیصلے چاہتا ہے، کر دیتا ہے۔
عمران خان نے پارٹی کے اندر الیکشن کا دھوم دھام سے اعلان کیا تھا لیکن جب الیکشن سے پہلے ہی خود ان کے دائیں بائیں والے بڑے لیڈر آپس میں لڑنے لگے۔ پہلے الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور اب اپنی مرضی سے اپنے چہیتوں کو پرانے عہدے بانٹ دیے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدہ جھگڑا صاحب کے گورنر بننے سے خالی ہوا کسی کو نہ یاد اور نہ ضرورت ہے کہ اس منصب پر الیکشن تو درکنار سلیکشن ہی کر دے۔
وزیر اعظم اپنی بیماری میں نہ خود اپنے منصب کو چھوڑنے پر تیار ہیں اور نہ کسی اور کو آگے لانے کے روادار ہیں۔ جمہوریت جمہوریت کی جتنی گردان ہمارے سیاست دانوں کی زبان پر ہوتی ہے کہیں اور ایسی تکرار کم ہی ہوتی ہو گی لیکن جمہوریت یہ نہ اپنی پارٹیوں میں لاگو کرتے ہیں اور نہ اصلی اور کھری جمہوریت ملک میں ان کو گوارا ہے۔
عمران خان نے ترکی کے تناظر میں بالواسطہ فوج کو دعوت دے دی ہے کہ وہ ائے تو ہم گویا مٹھائیآں تقسیم کریں گے۔ طاہر القادری اور شیخ رشید اور پرویز الہیٰ اور کسی حد تک اعتزاز احسن کا حال تو یہ ہے کہ شیطان ائے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے تو یہ لمحہ بھر میں اس کی بیعت کر لیں۔ خان صاحب اسے اپنی پارٹی کا اعلی عہدہ دے دیں۔ چئیرمین کی پوسٹ تو اس لیے نہیں چھوڑ سکتے کہ یہاں بے اختیار ہو کر انسانی خدمت کوئی ایدھی کر سکتا ہے سیاست دان تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ روز و شب اور یہ طلوع و غروب آفتاب انہی کے دم سے ہے۔ وہ سیاست چھوڑ دیں تو زمین اپنی گردش بھول جائے گی اور ہواؤں کا دم نکل جائے گا دریاؤں کی روانی تھم جائے گی اور خاکم بدہن پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہ اپنے ٹائیگر ون اپنے جیالوں اپنے متوالون اور اپنے مریدوں پر اپنا تسلط کھونے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ عمران خان پارٹی چئیرمین کا عہدہ چھوڑ دیں تو بنی گالہ کے گھر میں پانچ پالتو کتوں کے سوا ان کو کون اپنا مانے گا۔ یہی حال سب کا ہے۔
ہمارے چوہدری شجاعت نہ درست انداز میں بات کر سکتے ہیں اور کالی عینک اتار دیں تو ان کے لیے سارا جہاں تاریک ہے لیکن پارٹی کی سربراہی سے دست بردار نہیں ہوتے۔ سیخ رشید کی سیاست اب یا تو عمران خان کے پہلو میں بیٹھنے سے زندہ ہے یا ٹی وی اینکر ہر شام انہیں ہفوات سنانے بلا لیتے ہیں تو منظر پر ہیں لیکن ایک نفری پارٹی کے سربراہ کا مان و گمان جو سوار ہے اس سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے۔
تبصرہ لکھیے