کشمیریوں نے جذبہ حریت اور ایثار کی مثالیں قائم کر دیں۔ اب اہل پاکستان کو سوچنا چاہیے : کیا ہم کشمیریوں کے خیرخواہ ہیں؟ کیا پاکستان اس قابل ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو اگلے پانچ دس پندرہ یا بیس سال کے بعد بھی طاقت کے ساتھ کامیاب کروا لے گا؟ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو ٹھیک ہے، کشمیریوں سے کہہ دیجیے کہ اتنے سال وہ خون سے چراغ جلاتے رہیں ۔اس کے بعد ہم پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں آئیں گے اور ایک سویرا طلوع ہو جائے گا۔
لیکن اگر ہم نے بیس سال بعد بھی اپنی مجبوریوں کا رونا رونا ہے اور خود کو محض زبانی تائید تک محدود رکھنا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہو گی؟ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں۔ کوئی جنگی معرکہ تو اب کشمیر کا فیصلہ کرنے سے رہا۔ گوریلا جنگ کی مدت بالعموم دس سال ہوتی ہے، اس کے بعد اسے بھرپور قوت سہارا نہ دے تو یہ کامیاب نہیں ہو پاتی۔ نوے کی دہائی میں بھی تحریک چلی اور قربانیوں کی انمٹ داستان چھوڑ گئی۔ ہم زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ اب پھر ایک تحریک اٹھ رہی ہے۔ کیا اس دفعہ ہم کچھ کر سکیں گے؟
آزادی کا کوئی روڈ میپ ہے تو بتایا جائے۔ نہیں ہے تو کیا صرف اس لیے اٹھتی جوانیاں قربان کی جاتی رہیں کہ بھارت کو انگیج رکھا جائے۔ اگر ان کی حیثیت ہمارے لیے محض ایک ٹشو پیپر کی نہیں اور ان کے دکھ کو ہم اپنا سمجھتے ہیں تو کیا یہ کشمیریوں سے خیرخواہی ہو گی۔
ہم چاہتے کیا ہیں؟ بھارت کو صرف انگیج رکھنا ۔۔۔ یا آزادی؟
تبصرہ لکھیے