اول: سیکولرز اور لبرلز، وہ چونکہ اسلام کے مخالف ہیں اس لیے اسلام پسندوں کو بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ ایک عرصہ سے جلن میں مبتلا ہیں کہ ایک اسلام پسند رہنما ترکی جیسے بڑے ملک کی قیادت کر رہا ہے، مسلسل برسراقتدار ہے اور ناقابل شکست بنا ہوا ہے. اس طبقہ کا دکھ اور جلن سمجھ میں آنے والی ہے۔ یہ لوگ پہلے طیب اردگان کو سیکولر ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے لیکن جب ترک صدر کے اقوال اور افعال دنیا کے سامنے آئے تو ان سیکولرز اور لبرلز نے منہ چھپا لیا اور چپکے چپکے اردگان کو غلط آدمی قرار دینے کے لیے کوئی نہ کوئی موقع تلاش کرنے لگے۔
دوم: کچھ مخالفین ’’اسلامی‘‘ بھی ہیں۔ القاعدہ، طالبان یا حزب التحریر کی سوچ کے حاملین یہ حضرات طیب اردگان کو ملا محمد عمر کی شکل و عقل جیسا دیکھناچاہتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ القاعدہ، طالبان اور حزب التحریر نے عشروں کی جدوجہد کے بعد کیا حاصل کیا؟ کیا وہ غزہ کا محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہوئے؟ القاعدہ، طالبان اور حزب التحریر والوں کو طیب اردگان کا بھیجا ہوا فریڈم فلوٹیلا والا قافلہ تو یاد ہوگا، اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی جھاڑ پونچھ تو یاد ہوگی جو طیب اردگان نے ورلڈ اکانومک فورم میں کی تھی، یہ اردگان ہی تھا جس کی کوششوں کے سبب فریڈم فلوٹیلا کے بعد اسرائیل تاریخ میں پہلی بار پوری دنیا میں شدید ترین تنہائی کا شکار ہوا، امریکہ بھی اس کی حمایت میں کچھ کہنے سے قاصر تھا، دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیلی سفیروں کو نکال باہر کیا۔
سوباتوں کی ایک بات. طیب اردگان کا چراغ جل رہاہے، مخالفین اسے برداشت کریں یا پھر اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھ لیں کہ چراغ تو جلے گا طیب اردگان کا!!
چراغ تو جلے گا طیب اردگان کا - عبید اللہ عابد

تبصرہ لکھیے