انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے Murphy's Law، اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ جو خرابی ممکن ہے، وہ واقع ہو کر رہے گی.
یعنی کسی کام کی پلاننگ، تخمینہ، اس کے اجراء اور اس کی راہ میں حائل دشواریوں کا اندازہ قائم کرتے وقت یہ اصول پیش نظر رہے کہ غلطی کی گنجائش صفر ہے. کسی بھی صورت خود کو تساہل کا موقع نہ دیں اور ہمہ وقت چوکنا اور تیار رہیں. نیز، زیر نظر معاملہ کے ضمن کسی بھی طرح چُوک جانے کے بعد خوش قسمتی یا بچت کے ہرگز کوئی امید نہ رکھیں.
ہوشیار، مستعد اور خبردار رہنے کے لیے مرفیز لا سے بہتر کوئی فارمولا نہیں.
پاکستان اس وقت جس علاقائی جنگ میں گھرا ہوا ہے وہ اسی مرفیز لا کے کلیہ پر پاکستان پر تھوپی گئی ہے. جہاں جہاں، جیسے جیسے اور جتنا جتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا جا سکتا ہے، اسے میں کچھ کمی نہ رہنے پائے. دہشت گردی، بدامنی، افواہ سازی، بد دلی، بین الاقوامی پریس میں معاندانہ کوریج، سفارتی کشمکش یا پھر سرحدی جھڑپیں (جیسا کہ ان دنوں لائن آف کنٹرول پر جاری ہیں) .... سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جس سے پاکستان کی مشکیں کسنے کا عمل جاری ہے.
دشمن کا حقیقی مقصد نہ کسی شیعہ کو مارنا ہے، نہ سنی کو.... اصل ہدف ہے فرقہ وارانہ منافرت و فسادات. اس کے لیے اِس کو بھی مارا جائے گا اور اُس کو بھی. دیوبندی / بریلوی خلیج نظر آئے گی تو اسے بھی یوں ہی نہیں جانے دیا جائے گا اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے وہاں بھی خونریزی کی جائے گی. اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ سے زیادہ جانی نقصان والے ٹارگٹ چنے جائیں گے تاکہ حکومت اور عوام، یا پھر سیکورٹی اداروں اور عوام کے مابین عدم اعتماد کو ایک مستقل عامل بنا کر رکھا جائے. نہ پنجابی سے غرض ہے نہ بلوچ و سندھی سے. نہ خیبر پختونخوا سے لگاؤ ہے نہ کراچی والوں سے. ہر وہ واردات یا طریقہ واردات روا ہوگا جس کی بدولت علاقائی عصبیت کو ہوا دی جا سکے.
ان تمام باتوں کی تہہ میں ”ام المقاصد“ یہ ہے کہ قوم کو اس قدر وساوس میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ بحیثیت ایک قوم کے عمل اور ردعمل کی صلاحیت کھو بیٹھے.
ہمارے ہاں 14 سال کی مسلسل کوشش سے اب وہ اس قابل تو ہو چلے ہیں کہ کسی بات کو بھی عوامی پذیرائی کا مرکز بنا دیں. اب تو عمران خان صاحب کوئی دھرنا نہیں دے رہے تھے، پھر شاہ نورانی دھماکے سے نواز شریف صاحب کو کیا فائدہ پہنچانے کی کوشش ہوئی؟ یا ان دنوں تو نواز شریف صاحب کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر کنٹرول لائن پر لاشوں کے مسلسل تحفے کس کے بچاؤ کے لیے ہیں؟ یہ ضرور ہے کہ سی پیک کا افتتاح ضرور تھا، اگلی صبح جب بلوچستان میں واقع درگاہ کو نشانہ بنایا گیا. اصولاً یہ بات ہمارے لیے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش ہونا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اندرونی سیاست سے ان واقعات کی توجیہ تلاش کرنے لگیں.
اگر مرفی لا پر جنگ مسلط کی جا سکتی ہے تو اس کا دفاع بھی صرف اسی کلیہ سے ممکن ہے. ہر وہ طریقہ جس سے دفاع ممکن بنایا جا سکتا ہے، اسے بروئے کار لایا جائے.
سیکورٹی ایجنسیز ہوں یا حکومت .... ان کا فوکس جہد مسلسل کے بجائے دعوے کرنے اور داد و تحسین سمیٹنے پر زیادہ محسوس ہوتا ہے. ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ابھی تو ہم القاعدہ کی باقیات سے ہی نمٹ رہے ہیں جو ایک سیاسی ایجنڈے کو لے کر چل رہی تھی جبکہ ہمارے سامنے ایک نیا غنیم داعش کی صورت لا اتارا جا رہا ہے. یعنی جنگ کا ابھی تو محض ایک محاذ کچھ قابو آیا ہے جبکہ یہ تو چومکھی لڑائی ہے. داعش نہ صرف سیاسی عزائم رکھتی ہے بلکہ اس نے اس مقصد کے لیے معاشی اہداف کو ٹارگٹ کرنے کا طریقہ اپنایا ہے. تیل کا مرکز موصل ہو یا پھر شام کا جنوبی علاقہ، اور اب افغانستان اور بلوچستان سب نقشہ ہمارے سامنے ہے.
یہ سب سنگین ترین چیلنجز ہیں تاہم ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ پاکستان ان سے نبرد آزما ہو کر ایک مضبوط علاقائی طاقت اور خود اعتماد قوم بن کر ابھرے. تاہم اس سب کے لیے ہمیں کچھ محنت کرنا ہوگی، چند اور تیروں کا اپنے ترکش میں اضافہ کرنا ہوگا.
حکومت کا کام ہے کہ وہ ہر صورت گورننس کو بہتر بنائے تاکہ عوام میں مایوسی اور بددلی کا خاتمہ ہو سکے. امن و امان کی صورتحال کو سول سٹرکچر کے ماتحت بہتر بنایا جائے اور بلوچستان میں بھی سب معاملات پولیس کے سپرد ہوں. لیویز کا نظام ختم کر کے سب کو اے ایریا بنایا جائے. نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر پر جنرل جنجوعہ کے بجائے ذوالفقار چیمہ صاحب یا مسعود شریف خٹک صاحب کو لگایا جائے. ہمیں اجیت دوول کی طرح وہ بندہ چاہیے جو مجرم کے دماغ سے بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو. پولیس کی بیک گراؤنڈ والے افسران اس صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں کیونکہ پورے کیریئر میں انہیں جرائم کو قریب سے دیکھنے اور پھر مجرموں کو پکڑنے کے حوالہ سے براہ راست تجربہ ہوتا ہے.
سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ابھی تک صرف یہاں تک پہنچ پائے ہیں کہ ساٹھ سے ستر فیصد حملوں کو پہلے سے روک پاتے ہیں، بقایا حملے ہو تو جاتے ہیں لیکن بعد میں ٹریس ہو جاتے ہیں. یہ کافی نہیں. ہمیں کم از کم 90 فیصد حملے وقت سے پہلے روکنا ہوں گے. نقصان کا احتمال اتنا بڑھانا ہو گا کہ دشمن حملہ کرنے سے پہلے دس بار سوچے.
یہ جنگ پاکستان کی حدود کے اندر جاری ہے. اسے دھکیل کر سرحد پار واپس کرنا ہوگا. بھارت کوئی بڑا فوجی حملہ نہیں کرے گا. کنٹرول لائن پر فائرنگ جاری رہے گی. مقصد پاکستان کو زچ کیے رکھنا ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی جواز نہ بن پائے. یہ ایک مسلسل دباؤ ہے جس کا سامنا صرف جوابی فائر سے ممکن نہیں. کیا ہم بھارت کو کہیں اور مصروف کر سکتے ہیں؟ یہ اس وقت کا اہم ترین اسٹریٹیجک سوال ہے.
اس جنگ کو لڑنے اور پھر جیتنے کی دو بنیادی شرائط ہیں ....... گورننس اور منکر نکیر کے درجہ کی انٹیلی جنس. یہ سب ہمیں ایک بڑی اور مضبوط قوم بنانے کا بندوبست ہے ..... کیا ہم تیار ہیں ؟؟؟
تبصرہ لکھیے