دوسرے مرحلے میں اسلام آباد سے کسی ڈاکٹر صلاح الدین درویش صاحب کی کتاب ”فکر اقبال کا المیہ“ اس غرض سے پڑھنا شروع کیا کہ شاید مصنف نے ”فکر اقبال کے تنازعہ“ کو ختم کرنے کی کوشش کی ہوگی، اس کتاب پر اسلامی یونیورسٹی کے نامور ادیب ڈاکٹر روش ندیم صاحب کا لکھا ہوا مقدمہ بھی یہی تھا کہ اقبال کو مسجد کے خطیب سے لے کر سوشلسٹ سب اپنا مفکر مانتے ہیں۔ میں نے بھی اس الجھن کو دور کرنے کی خاطر کتاب اٹھائی۔ لیکن اس کے علی الرغم موصوف نے اقبال پر حد درجہ کی ہرزہ سرائی کی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا تعلق بھی جلال پوری صاحب کے ”سیاسی حلقے“ سے ہیں۔
اس خاک بسر فکر کے اور صاحب فیس بک کے نامور دانشور ہیں۔ اقبال کا مذاق اڑانا ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ گئے دنوں ایک حیران کن دعوی بھی کیا تھا کہ اقبال ؒ نے پی ایچ ڈی نہیں کی تھی، کانٹ کے بارے میں اپنے خطبات میں غلط بیانی بھی کی ہے۔ اسی قبیل کے اور بھی بہت ساری ”تحقیقات“ تھیں۔
پھچلے دنوں ان دانشور صاحب نے احمد جاوید صاحب پر بھی حملہ کیا تھا کہ ہم تو اقبال کو فلسفی نہیں مانتے تو اقبالیات کے ماہر کو کیا حثیت دیں گے۔
میں چونکہ فلسفے کے ”الف“ اور ”ب“ کو بھی نہیں جانتا اس لیے تحریر کو فلسفیانہ جکڑ بندیوں میں الجھا سکتا ہوں اور نہ ایسی بذلہ سنجی کو علمی کام سمجھتا ہوں بلکہ اس کو ادنی سی وقعت بھی نہیں دیتا۔
آمدم بر سر مطلب!
اقبال اب بھی ہمارے ماتھے کا جومر ہیں اور تا قیامت رہے گا۔ جس کے قد میں یہ بزعم خود دانشور اور فلسفی رتی برابر کمی نہیں لاسکتے۔ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہی ہوگی، اگر اسلاف کے بارے میں کوئی بدگمانی پیدا ہوجائے تو اس کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
ناقدین اقبال ؒ اور میں - مراد علوی

تبصرہ لکھیے