ہوم << صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری - مولانا محمد جہان یعقوب

صلیبی جنگوں کے آخری راؤنڈکی تیاری - مولانا محمد جہان یعقوب

محمد جہان یعقب امریکامیں صدارتی انتخابات کامرحلہ مکمل ہوچکاہے اور ”خلاف توقع“ ایک سینئرسیاست دان کو ہرا کر ایک سرمایہ کار برسر اقتدار آ چکا ہے۔ امریکی الیکشن میں دل چسپی لینے والے اہل وطن کی اکثریت ٹرمپ کی جیت کوملکی سلامتی کے لیے نیک شگون قرارنہیں دیتی، ان کاخیال ہے کہ اگر ہیلری کلنٹن کامیاب ہوجاتیں تو پاکستان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان کا تاثر یہ ہے کہ برا ہوا جو ٹرمپ کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا جس ٹریک پر چل چکا ہے، اب وہاں کوئی بھی حکمران آئے، وہ اس سے نہیں ہٹ سکتا، امریکا کے پالیسی ساز کئی کئی برسوں کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان پالیسی سازوں کے رگ و ریشے میں پاکستان اور اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جس کے مطابق وہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد بش، کلنٹن، اوباما، تمام صدور اسی پالیسی کے مطابق زمین ہموار کرنے کے لیے برسراقتدار لائے گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کواقتدار تفویض کیا جانا بھی اسی منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ اگر وہ یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو امریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا، بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، تو اوبامانے کیا یہ سب کچھ نہیں کیا تھا؟ کیا ان سب اقدامات میں ہیلری اس کے ساتھ برابر کی شریک نہیں تھی؟ اب ان لوگوں کی خوش فہمی بھی دور ہوجانی چاہیے جو امریکی عوام کو کلین چٹ دیا کرتے تھے کہ امریکی عوام کھلے دل والے لوگ ہیں۔ ٹرمپ کے انتخاب سے اندازہ ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے کیا عزائم رکھتے ہیں، ان کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر عیاں کر دیاہے۔
ٹرمپ کوجس منظرنامے میں اقتدار مل رہاہے، وہ یہ ہے کہ امریکا مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اس نے مقامی مخالفین، چاہے وہ حکمران ہوں یا اپوزیشن، کو ساتھ ملا کر مسلم ممالک میں تباہی و بربادی، قتل عام اور مسلم کشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں سب سے بڑا اتحادی اور فرنٹ مین قرار دینے کے باوجود امریکا نے ہمیشہ دھوکا دیا، افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکاؤ بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلیئر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اسے نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے مہم چلائی۔ ملک کو اندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی، ڈرون حملے میں گھروں کے گھر اجاڑ دیے، ڈالروں کی چکا چوند اور امداد کے موہوم سراب دکھا کر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کیا۔ پہلے پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا، پھر مذہبی انتہا پسندی، لسانی تعصب اور حقوق کی عدم فراہمی کے کارڈز استعمال کرکے ہمارے ہی بھائیوں کو ہمارے خلاف کھڑا کیا، پھر ان ہی کے خلاف ہمیں لڑنے کا حکم دیا، یوں وزیرستان ہو یا بلوچستان، جنوبی پنجاب ہو یا سندھ ، مقتل کا منظر پیش کرتے رہے، جس میں قاتل بھی ہم اور مقتول بھی ہم ہی تھے۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کی دوراندیشی سے اب صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے، ورنہ اپنے مفادات کے اسیر سیاست دانوں نے تو عملی طور پر ملک کو امریکی باج گزاری میں دے ہی ڈالا تھا۔
ہمیں ان کے غم میں نہیں گھلناچاہیے۔ ”بیگانی شادی“ میں ہی”دیوانے“ ہوتے رہے تو خاکم بدہن ہمارا حال اور بھی ابتر ہوجائے گا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو درست خطوط پر استوار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان اور اسلام کے خلاف لب و لہجہ بتاتا ہے کہ اب امریکا صلیبی جنگوں کا آخری راؤنڈ کھیلنے جا رہا ہے۔ امریکا ایک حقیقت ہے، اس کی طاقت اور عالمی منظر نامے پر اس کے اثر و رسوخ کو جھٹلانا خود فریبی کے مترادف ہے، لیکن خارجہ پالیسی کی تطہیر ضروری ہے۔ ہمیں دنیا کی انصاف پسند رائےعامہ کوساتھ ملا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانی ہوگی، اس کے لیے ضروری ورک ناگزیر ہے۔ پاکستان نے جب کبھی بھی ایسا کوئی اسٹینڈ لیا، اس کے دل خواہ نتائج سامنے آئے۔زیادہ پرانی بات نہیں جب وطن عزیز کی طرف سے نیٹو کی سپلائی بند کی گئی تھی تو امریکی اور اتحادی منت سماجت پر اترآئے تھے کہ رسد نہ ہونے کے باعث افغانستان میں پھنسی امریکی فوج کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔ شومیِ قسمت، ہم ہی اپنی بات پر نہ جم سکے ورنہ عالمی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ رسد اگرچند دن نہ کھلتی تو امریکیوں کو دن میں تارے نظر آنے تھے۔ پاکستان اسی طرح ہرمعاملے میں استقامت کے ساتھ امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے سامنے ڈٹ جاتا، تو کوئی بعید نہیں تھا کہ امریکا ہمیں اپنی کالونی بنانے کے خبط سے نکل کر برابری کی سطح پر ہم سے ڈائیلاگ کرتا۔ ہماری خارجہ پالیسی آقا اور غلام کے بجائے اتحادی ہونے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے، تاکہ ہم اس سے کچھ اپنی بھی منواسکیں، ہم اس سے شکوہ بھی کرسکیں اور اس کے غلط کو غلط بھی کہہ سکیں، جس طرح ایران کا امریکا کے ساتھ معاملہ ہے۔ کاش! ہمارے حکمران ایران سے ہی ملی وملکی غیرت وحمیت مستعار لے لیں، آخر قومی ضمیر کا یہ سودا کب تک ہوتا رہے گا؟ یکطرفہ ٹریفک کا سلسلہ اب روکنا ہوگا، ورنہ ملک مزید انتشار کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ غیروں کو آلہ کار ہماری درمیان سے کیوں مل رہے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ محرومیوں کا ازالہ اور حقوق کی فراہمی کسی بھی ملک دشمن کے عزائم ناکام بنانے کا کارگر طریقہ ہے، ہمارے مسائل کی بہت بڑی وجہ امریکی مداخلت بھی ہے، جس کا توڑ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تمام ہم وطنوں کو ان کے جائز حقوق دیں، ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں، بےلاگ عدل اور انصاف کی فراہمی کو اپناشعار بنائیں۔
یہاں ہم ایک دوسری بات کی طرف بھی توجہ مبذو ل کرناچاہتے ہیں، کہ گورنر سندھ کی برطرفی کی ایک اہم وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ وہ ایم کیوایم کو پرویزمشرف کو تھالی میں رکھ کر پیش کرنا چاہتے تھے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ دبئی بھی اسی مقصد سے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کہیں ایک بار پھر یہ بزدل کمانڈو، جو ایک فون کال پر ڈھیر ہوگیا تھا، ہماری ملکی تقدیر کا مالک نہ بن جائے۔ پالیسی ساز ادارے یقیناً باخبر ہیں اور ان سے یہی اپیل اور توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس ”طالع آزما“ کا راستہ روکیں گے، جس نے امریکی ایما پر ڈرون اور خودکش حملوں کی دلدل میں وطن عزیز کو دھکیلا۔