علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک پرچے میں پوچھےگئے بےہودہ سوال کی طرف دوستوں نے توجہ دلائی تو میں نے اسے بےبنیاد پروپیگنڈہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا. میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں اس قدر بےہودگی اور اخلاق باختگی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے. ابھی میری رسول بخش بہرام صاحب سے بات ہوئی جو اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر ہیں. میں نے ان سے اس پرچے کی بابت سوال کیا اور انہوں نے جو جواب دیا اس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے.
فرمانے لگے: جی آصف صاحب! ہم نے پوچھا ہے کہ بہن کی فزیک بتائیں، اس میں حرج کیا ہے؟
میں نے آج اپنے ٹاک شو میں بھی ان صاحب کو فون پر لیا اور انہوں نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ اسی موقف کا اظہار کیا.
پروگرام کا لنک
https://youtu.be/QxYFbeTxqZs
یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے. بے ہودگی کے یہ مظاہر اتفاقات زمانہ کے باب میں درج نہیں کیے جا سکتے. اقبال کے نام سے منسوب ایک تعلیمی ادارے سے اس چاند ماری کا آغاز بھی محض اتفاق نہیں ہے. یوم اقبال کی چھٹی کے خاتمے کے بعد اب یہ اقبال کی چھٹی کا اعلان ہے. دل مان کر نہیں دیتا کہ یہ واردات کسی شخص کی انفرادی واردات ہوگی. جس دیدہ دلیری سے ریجنل ڈائریکٹر اس حرکت کا دفاع کر رہے تھے، اس سے میری یہ رائے مزید مضبوط ہوئی ہے کہ یہ انفرادی فعل نہیں ہے. یہ نصاب اور درس گاہوں کو سیکولر کرنے کی کوششوں کی اولین دستک ہے.
اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھا جانا چاہیے. کچھ این جی اوز جو ہماری اقدار کے درپے ہیں، وہ باقاعدہ لوگوں کو ایسی حرکتوں کا معاوضہ دیتی ہیں. اس معاوضے کی تپش صحافت میں بھی محسوس ہوتی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں دکھائی دے رہی ہے. جو کچھ ہو رہا ہے بلاوجہ نہیں ہو رہا نہ ہی اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے.
تبصرہ لکھیے