ہوم << رقص گاہیں یا قتل گاہیں - ڈاکٹر عمرفاروق

رقص گاہیں یا قتل گاہیں - ڈاکٹر عمرفاروق

ڈاکٹرعمرفاروق احرار دوغلاپن، منافقت کا دوسرانام ہے۔ دو رُخی نے معاشرہ کو تقسیم در تقسیم کرکے ہماری شناخت ہی کو کجلا کر رکھ دیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ’’نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھرکے رہے‘‘ ہم اپنے تئیں خالق کو بھی خوش رکھنا چاہتے ہیں اور حضرتِ ابلیس کے ساتھ بھی یاری بہ شرطِ استواری کے متمنی ہیں یعنی باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی۔ آج جب رقص و سرود کی تربیت کے حوالے سے کچھ خبریں نظرسے گزریں تو اُردو شاعری کا بےتاج بادشاہ غالب بہت یاد آیا کہ جس نے اپنے آپ کو ’’آدھا انگریز‘‘ کہتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’میں شراب تو پیتاہوں، مگر سؤر نہیں کھاتا۔‘‘
ہمارا دعویٰ سچے مسلمان اور پکے پاکستانی ہونے کا ہے، مگر کردار بدباطنی کی چغلی کھاتا ہے۔ کیا ہوگیا ہے ہمارے دل و دماغ کو! کہ جو حق قبول کرنے سے انکاری مگر باطل سے یاری چاہتے ہیں۔ خود بھی نافرمانیوں اور بغاوتوں کی زندگی گزاری اور اب اپنی نسلوں کو بھی طاغوت کی غلامی میں دے کر انہیں بے موت مارنے کے درپے ہوگئے ہیں۔ کاش کوئی تو حق کی آواز پر لبیک کہہ کر باطل کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرتا۔ ہمارامستقبل، ہماری نوجوان پود تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے بےہنگم اچھل کود اور ناچ گانے کی دلدادہ کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ کوئی تو پاکستان کے سنہری مستقبل کو موسیقی کی تانوں اور رقص کی قوسوں میں گم ہوجانے سے بچا لے۔ کوئی تو اِس قوم کو سمجھائے کہ تاک دھنادھن تاک اور سارے گاما، پا دھا نی سا، کے سہارے گوِیّا اور رَقاص تو بنا جا سکتا ہے، ترقی ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ این رجل الرشید؟ افسوس کہ سرکاری سرپرستی میں فنون لطیفہ کے نام پر میٹھا زہر کھلا کر، معصوم بچوں کوطبلے کی تھاپ پر تھرکاتے ہوئے اندھی راہوں کا مسافر بنایا جا رہا ہے۔
ایک اخباری سروے کے مطابق: ’’صرف ایک شہر لاہور میں پبلک سیکٹر میں 2 اور پرائیویٹ سیکٹر میں 12 کے قریب ڈانس اکیڈمیاں ہیں۔ ان کے علاوہ پندرہ سے بیس نوجوان لڑکوں کے ڈانس گروپ ہیں۔ پبلک سیکٹر میں ایک الحمرا اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ اور دوسری نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ ہے جو شاکر علی میوزیم میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے زیر انتظام ہے ۔‘‘ حال ہی میں جب سندھ کے بعض نجی تعلیمی اداروں میں رقص پر پابندی کی خبریں آئیں تو وزیراعلیٰ سندھ نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی، کیونکہ موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘ کوئی اس بھلے مانس سے کہے کہ حضور! ہم مادر پدر آزاد معاشرہ نہیں ہیں اور نہ رقص و موسیقی ہمارے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ ہم پاکستانی ہیں، اسلامی معاشرہ رکھتے ہیں اور پاکستان لاالہ الااللہ کی حکمرانی ہی کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ اسلام ہی ہماری اوّل و آخری منزل ہے۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی بعثت کا ایک مقصد آلاتِ موسیقی کو توڑنا قرار دیا تھا۔ بت سازی، موسیقی، رقص، سنگ تراشی، مصوری جیسے’’ فنونِ لطیفہ‘‘ زمانہ جاہلیت میں اپنی انتہا پر تھے۔ اسلام آنے کے بعد اُن کی کسی بھی درجہ میں کوئی اہمیت باقی نہیں رکھی گئی، بلکہ دین و فطرت سے انحراف پر مبنی لہوولعب کے تمام حیلوں کا راستہ بند کر دیا گیا۔ ہم سوزوساز اور رقص و سرود کو فنِ لطیفہ قراردے کر معاشرہ کو کس رُخ پر ڈالنا چاہتے ہیں؟
موسیقی نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں تک پر اَثرات مرتب کرتی ہے۔ سچ کہا سیّدعلی ہجویریؒ نے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ مجھ پر موسیقی کا اثرنہیں ہوتا، وہ پاگل ہے، یا جھوٹا ہے۔ موسیقی غم و حزن سے لے کر جنسی ہیجان تک کے جذبات ابھارتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ’’ گانا دل میں نفاق اس طرح اُگاتا ہے، جیسے پانی کھیتی اگاتا ہے۔‘‘ رقص کو معاشرے کی کلیدگرداننے والے رہنما ذرا اِس خبر پر بھی غور فرمائیں کہ مغرب خود کس حد تک رقص سے گریز پا ہو رہا ہے: ’’برازیل میں والدین نے جدید ہوپ ڈانس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بچوں پر کم عمری سے ہی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا بھی حرج ہو رہا ہے۔ برازیلی عدالت میں بچوں کے حقوق کے وکیل نے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر یہ ایک افسوسناک امر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بچے کم عمری میں ہی اپنی معصومیت کھو بیٹھیں گے جو ایسی چیز ہے کہ چلی جائے تو واپس نہیں آتی۔‘‘ آزاد معاشرے ڈانس کو بچوں کی معصومیت کے لیے تباہی جبکہ ہم اسے روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ڈانس کلاسز جاری ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات ہوں، یا مخصوص تہوار، رقص ان کا بنیادی جزو ہے۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں سے سائنسدان، انجینئر، ڈاکٹر اور حب ِوطن سے سرشار نسل کی تیاری کی توقع تھی۔ اب وہاں سے مستقبل کے بچے ڈانس،گلوکاری، مقابلہ حسن، فیشن شوز، میوزیکل کنسرٹ، فن فیئرز، ملبوسات کی نمائش اور کیٹ واک کے پرفارمر بن کر نکلیں گے اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے سپوتوں کے بجائے وہ ڈانس کے شہرت یافتہ نمائندوں غلام حسین کتھک، خانوسمراٹ، شیماکرمانی اور ناہیدصدیقی ہی کے فن کے علمبرداری کریں گے۔ کیا اب تعلیمی اداروں میں ریسرچ، صنعت و ٹیکنالوجی کے بجائے کلاسیکل، کتھک، ٹینگو، سالسا، راک اینڈ رول، ہپ ہاپ اور بیلے ڈانس کی صورت میں اعضاء کی شاعری سکھائی جائے گی؟ بقول کسے ’’پوری دنیا میں ایسا کوئی تعلیمی نظام نہیں جو بچوں کو روزانہ رقص کی تعلیم دے ، جیسے ہم انہیں حساب پڑھاتے ہیں۔‘‘
کہا یہ جاتا ہے کہ’’صاحب! ہم گلوبل ولیج کے عہد میں رہ رہے ہیں اور جغرافیائی حدود اب میڈیا کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔‘‘ نہیں جنابِ والا! ہم فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور انڈر سٹینڈنگ کے نام پر عریانی و فحاشی اور بےلگام آزادی کو قبول نہیں کرسکتے۔ پہلے اپنی شناخت پر بھی تو غورکیجیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان اور پھر پاکستانی ہیں۔ ہمیں اپنے تشخص کا تحفظ اور خیال ہر صورت میں رکھنا ہے۔ اگر پڑوسی ملک بھارت میں رقص و سرود عام ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ڈانس، ڈرامہ اور موسیقی ان کے مذہب اور کلچر کا حصہ ہے۔ بھڑکیلے رقص، گلیمر، رومانس، شوبز، ماڈلنگ، راگ و رنگ اور نغمہ و نے کا ہماری تہذیب، تمدن اور معاشرہ سے دُور تک بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ پازیب کی جھنکار، جسم کے لوچ اور قلقلِ مینا سے گلیمر گرلز اور چاکلیٹ ہیرو ہی جنم لیتے ہیں، مگر محمد بن قاسم، ٹیپوسلطان، سیّد احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید جیسے سپوت صرف لاالہ الااللہ کی لوریوں ہی سے پروان چڑھتے ہیں۔ ہمیں علم و ہنرسکھانے والی درس گاہیں چاہییں، نہ کہ رقص گاہیں، کیونکہ علمی درس گاہیں قوموں کے اخلاق و تہذیب کو سنوارتی اور شخصیت و کردار کو اُجالتی ہیں جبکہ رقص گاہیں اخلاق کو برباد اور شرم و حیا کو نیلام کر کے نسلوں کو اُجاڑتی اور فکر و نظر کی قتل گاہوں کو عام کرتی ہیں۔

Comments

Click here to post a comment