ڈونلڈ ٹرمپ نے معذوروں کی نقل اُتاری، خواتین کی بےحُرمتی کی، کالوں کا تمسخر بنایا، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ”ریپسٹ“ اور چور کہا اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کیا، مسلمانوں کو دہشت گرد اور فساد کی جڑ قرار دیا، لیکن گوروں کی تعریف کی اور انھیں سُہانے خواب دکھائے، جس کے باعث گوروں نے اُسے صدر چُن لیا۔ اس صورتحال میں دیکھا جائے تو گورے، انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ ہیں۔
چلیں اب ایک منٹ کے لیے فرض کرتے ہیں کہ
یہی ٹرمپ معذروں کی نقل اُتارتا ہے، خواتین کی بےحُرمتی کرتا ہی، کالوں کا تمسخر بناتا ہے، ہسپانیوں اور میکسیکن کو ریپسٹ اور چور کہتا ہے اور ان کے لیے دیوار بنانے کا اعادہ کرتا ہے، لیکن اس بار وہ مسلمانوں اور گوروں، دونوں کی تعریف کرتا ہے اور انھیں سُہانے خواب دکھاتا ہے، تو کیا مسلمان اُسے صدر چُنیں گے؟ جی یقیناً چُنیں گے۔ تو کیا اب مسلمان بھی گوروں کی طرح انتہائی خود غرض، مطلب پرست، جاہل اور عورت کی حُکمرانی کو حقیر ماننے والے لوگ کہلائیں گے؟ ظاہری سی بات ہے کہ اس کا جواب ہے”نہیں“۔ یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے جو کہ دُنیا کے ہر مُلک اور خطے میں لڑی جاتی ہے۔ گوروں نے اپنا مفاد دیکھا اور ”رنگ داروں“ نے اپنا۔
یاد رہے کہ راقم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح ہیلری کلنٹن کی حمایت میں آگے آگے تھا اور وجہ وہی ہے جو اوپر بتائی گئی ہے کہ ٹرمپ نے ہمیں مُنہ نہیں لگایا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ٹرمپ بےوقوف اور مشتعل مزاج انسان ہے لیکن اس نے بڑی چالاکی سے %0.9 مسلمانوں، %13 کالوں اور %16 ہسپانیوں کو امریکہ کی ترقی اور برائے نام عظمت کی زوال پذیری کا باعث قرار دے کر %70 سے زائد سفید فام ووٹرز اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ %58 گوروں نے اسے ووٹ تو دیے ہی مگر%30 ایشین اور %30 ہسپانوی ووٹ بھی لے اُڑا (اصل ”پٹواری“ تو ہسپانوی ہوئے، اتنی بے عزتی کے بعد بھی تیس فیصد لوگ ٹرمپ کے ساتھ)۔ یاد رہے کہ ہندوستانی بھی ٹرمپ کے حق میں تھے۔
ہم امریکہ میں تارکینِ وطن ہیں اور رہیں گے، جب تک ہم اپنے بچوں کی گوروں سے شادیاں کرکے ایک نئی کارٹون نما نسل پیدا نہ کرلیں، اور یہ کارٹون نما نسل بھی کوئی ایک دو نسلوں کے بعد ”اصلی امریکی“ کہلائے گی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے ہاں کئی ”اصلی شاہ“ بنتے ہیں اور چونکہ ہمارے سامنے بنتے ہیں، اس لیے ہم ان کے ”اصلی“ ہونے کی گواہی دے سکتے ہیں۔ کارٹون نما نسل کیسی ہوتی ہے:؟ اس کا نمونہ ٹی وی پر ”انکل الطاف“ یا ”چاچا عمران“ کہتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
تارکینِ وطن کو زمینی حقائق کے مطابق زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ تارکینِ وطن کا بھٹو زندہ رہتا ہے نہ ہی لوہار ہمیشہ کے لیےگلے کا ہار بن سکتا ہے۔ تارکینِ وطن نہ تو ٹرمپ کے گھر کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا لیڈر ایسا مجمع اکھٹا کرکے ”بچہ پیدا کرنے کے طریقے“ بیان کرسکتا ہےجس میں خود بچے بھی سُن رہے ہوں۔ حکومت کی پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرنا پڑتا ہے تاہم آزادی اظہار کے طور پر اپنی آواز مُناسب طریقے سے بُلند کی جا سکتی ہے۔
مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں نے اس الیکشن جس اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، ان کی اثر اندازی اور ان کے علاقوں میں ہیلری کے ووٹوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مُشکل نہیں کہ اگلے الیکشن میں کم از کم دس سیٹوں پر پاکستانی ایوانِ زیریں (House of Representative) کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ آنے والی ری پبلکن حکومت کی جیت کا کھُلے دل سے خیر مقدم کرکے اس کے ساتھ بہترین تعلقات بنائے جائیں اور بہتر تعلقات کے لیے بہترین پلیٹ فارم استعمال کیے جائیں۔ زندہ قومیں زندہ فیصلوں سے زندہ رہتی ہیں۔ بیدار مغزی ، سمجھداری اور مُلک و قوم کی بہتری جذباتی وابستگیوں سے بڑھ کر ہے۔ خدا ہمیں مناسب وقت پر مناسب فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین
(راؤ کامران علی امریکہ میں مقیم ہیں)
تبصرہ لکھیے