آج کل ترکی کی ناکام بغاوت خوب ڈسکس ہو رہی ہے پاکستان میں- بدقسمتی سے اس ایشو پر بھی بہت سی آرا ایسی ہیں جو حب جمہوریت نہیں بلکہ بغض فوج کا شکار ہیں، اسی طرح کچھ دوست ایسے ہیں جو لبرل یا سیکولر وغیرہ کہتے ہیں خود کو اس لئے ان کی پوری کوشش ہے کہ اردگان کو سو فیصد غلط ثابت کر دیا جاۓ کیونکہ وہ مذہبی رجحان رکھتا ہے اور ترکی بہت سے معاملات میں پاکستان سے کافی مماثلت رکھتا ہے مثلا وہاں بھی کافی مارشل لا لگتے رہے ہیں اس لئے اگر وہاں سیکولر ازم کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے اور ترکی پھر بھی ترقی کرتا رہتا ہے تو ان کا پاکستان کو سیکولر بنانے کا خواب شائد کبھی پورا نا ہو پاۓ- اسی طرح جماعت اسلامی اور مذہبی رجحان رکھنے والے کچھ دوستوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ترکی کے اردگان کو "خلیفہ التمسلمین" ثابت کر دیا جاۓ- کچھ دوست جو بوجوہ فوجی مارشل لا سے رغبت رکھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اس بغاوت کو کسی طرح جائز ثابت کیا جاۓ جبکہ کچھ حضرات کو جمہوری اور "سول بالادستی" والی باتیں بہت اچھی لگ رہی ہیں-
سب سے پہلے کچھ حسابی کتابی حقائق کی بات ہو جاۓ جن کو چیلنج کرنا کافی مشکل ہوتا ہے- ترکی کی آرمی کی کل تعداد سوا چھ لاکھ کے قریب ہے- کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے لگ بھگ ایک ہزار افراد نے بغاوت میں حصہ لیا- سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس دوران ایک سو چار باغی مارے گئے- جب کہ ایک سو ساٹھ سول ہلاکتیں ہوئیں- ان میں سے کون شہید ہوا اور کون نہیں، یہ فیصلہ انہی پر چھوڑا جن کا یہ کام ہے- لیکن ان اعدادوشمار میں نکتے کی بات یہ ہے کہ ایک ٹرینڈ پروفیشنل آرمی کا ہتھیاروں کے ساتھ سویلینز کے مقابلے میں مرنے اور مارنے کا تناسب تقریبا تقریبا ایک اورڈیڑھ کا تھا- یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے- اس لئے اس پر اگر کوئی شکوک و شبھات کا اظہار کرتا ہے تو کوئی اتنی ناجائز بات نہیں- یاد رہے کہ باغیوں کو ترکی کے حالات کے پیش نظر پورا اندازہ ہو گا کہ ناکامی کی صورت میں موت ہی ملے گی- اگلا فگر ہے ان ججوں کی تعداد کا جن کو اس بغاوت کے فورا بعد حکومت نے برطرف کر دیا ہے، ان کی تعداد ہے صرف پونے تین ہزار- اب ججوں کی برطرفی کا فوجیوں کی بغاوت سے کیا تعلق ہے، اس پر بھی محض اندازے ہی لگاۓ جا سکتے ہیں جب تک کہ آپ باغیوں کی پلاننگ میں شریک نا ہوں-
اس کے بعد باری آتی ہے ایک فکری دو عملی کی- اگر آپ ترکی میں عوام کے فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر آنے پر اتنے ہی خوش ہیں جتنے تب ہوۓ تھے جب آئیس لینڈ کی عوام نے سڑکوں پر نکل کے اپنی کرپٹ وزیراعظم کی چھٹی کروا دی تھی اور آپ نے تب یہی چاہا تھا کہ ہماری قوم بھی ایسی ہی بن جاۓ اور اب بھی آپ کی یہی خواہش ہے کہ ترکی کی عوام سے ہماری عوام سبق سیکھے تو آپ کو سلام پیش کرتے ہیں کیونکہ آپ فکری دو عملی سے دور ہیں- ایک اچھی جمہوریت کے دو جزو ہوتے ہیں- قابل اور ایماندار سیاستدان اور سول بالادستی- دونوں لازم و ملزوم ہیں- بے ایمان لیڈرشپ سے سویلین بالادستی کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسے رات کو سورج نکلنے کی- اردگان نے بھی اسی ماڈل پر عمل کیا تھا- مارشل لا ہمیشہ تب کامیاب ہوتے ہیں جب عوام سول حکمرانوں کی کرپشن اور بد اعمالیوں کے ہاتھوں "نکو نک" آ چکی ہو- ورنہ دنیا کی کوئی فوج تعداد میں عوام سے زیادہ نہیں ہوتی اور مارشل لا لگانے کا سوچ بھی نہیں سکتی- اس لئے اگر پاکستانی جمہوری نظام مضبوط بنانا ہے تو کڑا احتساب، سیاستدانوں کی پرفارمنس ضروری ہے، اس کے بعد عوام اپنے ایماندار اور محب وطن لیڈروں کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے سے بھی گریز نہیں کرے گی ورنہ مٹھائی بانٹ کر گھر جا کر لیٹ جاۓ گی اور ٹی وی پر ٹاک شوز دیکھنے میں لگ جاۓ گی-
اب اردگان صاحب کے کردار پر کچھ بات ہو جاۓ- فدوی آج سے سال پہلے تک اردگان کا زبردست فین تھا اور ہمیشہ اس کی مثالیں پیش کیا کرتا تھا کہ یہ ہے سویلین بالادستی قائم کرنے کا درست طریقہ- میں سیکولر نہیں ہوں اور پورے خلوص سے یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہماری زندگی کا مقصد ہونا چاہیے اور بطور ایک مسلمان میری یہی خواہش ہر مسلمان ملک کے بارے میں بھی ہوتی ہے- دوسری بات اگر ترکی میں اسلام پسندوں کی حکومت کا تجربہ ناکام ہو جاۓ خدا نخواستہ یا فساد پر منتج ہو تو ہمارے اس کاز کو پاکستان میں بھی نقصان پہنچے گا- اس لئے میں اردگان صاحب کے بارے میں یہ راۓ رکھتا ہوں کہ کوئی شک نہیں وہ دس بار مزید الیکشن جیت سکتے ہوں گے، مگر ایک عظیم شخص اور ایک کامیاب سیاستدان میں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ ایک عظیم شخص مناسب وقت پر پردہ سکرین سے ہٹ جاتا ہے نیلسن منڈیلا کی طرح- انگریزی کی ایک سطر اس بات کو بہت اچھے سے واضح کرتی ہے
You either die as a hero or you live long enough to see yourself turn into a villain
اردگان صاحب بہت اچھا اور مثبت کردار ادا کر چکے ہیں ترکی کے لئے- اب تازہ خیالات اور نوجوان لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو اگر اردگان صاحب کی نصیحت و نگرانی کی روشنی میں کام کرے تو ترکی کے لئے بہت مفید ثابت ہو گا- جب ایک شخص بار بار اقتدار میں آتا ہے تو اس میں ایک خاص قسم کی رعونت پروان چڑھنا شروع ہو جاتی ہے رفتہ رفتہ اور اس میں وہ ایسی غلطیاں کر جاتا ہے جو اس نے خود بھی کبھی نہیں سوچی ہوتیں- اس لئے بغاوت اردگان صاحب کا امتحان نہیں تھی، اس بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ اب کیا کرتے ہیں، یہ اصل امتحان ہو گا- ایک اور بات جو شدید مایوسی کا سبب بنی ہے وہ یہ ہےکہ ترکی جیسی بڑی فوج دراصل اندر سے اس قدر کمزور ہے تو مستقبل میں وہ دہشتگردی اور بغاوت کے عفریت سےکیسے نپٹے گی؟ ترکی کی فوج کو اپنے ادارےکو ٹھیک کرنے پر شدید توجہ کی فوری ضرورت ہے-
تواس کامطلب کہ سولین حکومت پر جب اور جوچاھاجائے الزام لگاکر اس کابسترا گول کردیاجائے ؟
یا جیسے آج خان سانپ آزادکشمیر میں پنجاب کے خلاف زھر اگل رھے ھیں وھی درست سمجھا جائے یایہ کہ نئے پاکستان میں کسی سے کوئی ثبوت نہیں مانگے گا سیدھاالزام لگاؤ اور پھانسی لگادو ؟