محترم جناب عمران خان صاحب!
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ناچیز کا یہ محبت نامہ ان گم گشتہ یادوں کا نوحہ ہے جنہوں نے آپ کو اوج ثریا تک پہنچایا تھا۔ ہمیں یاد ہے آپ جب کرکٹ کے میدان میں کھیل کے لیے اترتے تھے تو آپ کے کھیل سے زیادہ ہمیں آپ کا جذبہ، خود اعتمادی اور فتح کا یقین متاثر کرتے تھے۔ ہم کرکٹ ہار بھی رہے ہوتے تھے تو بھی آپ کی کپتانی دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ آپ ہمت نہیں چھوڑ رہے اور آخر دم تک لڑ رہے ہیں۔ پھر جب آپ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے عوام کے درمیان آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہ عوام اپنے ہیرو کو بھولی نہیں تھی، اور کیسے اپنا سب آپ پر لٹانے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ اسی عوامی یاترا سے آپ کو قوم کی زبوں حالی اور لاوارث پن کا ادراک بھی ہوا۔ آپ اس قوم کو ایک کینسر ہسپتال کا تحفہ دے چکے تھے لیکن قوم کا جذبہ حب الوطنی اور ایثار دیکھ کر بس اسی پر اکتفا نہ کرسکے اور عوامی بھلائی کے لیے سیاست میں آنے کا اعلان کردیا۔ آپ کی شخصیت کا قد اس قدر بلند تھا کہ جس بھی سیاسی پارٹی میں جاتے، ایک اہم عہدے اور وزارت کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہا جاتا، لیکن چونکہ آپ اس کرپٹ سیاسی نظام کے مخالف تھے، اس لیے بجائے اس آلودہ سیاست کا حصہ بننے کے آپ نے اپنی سیاسی پارٹی بنا ڈالی۔ بد قسمتی سے دو پارٹیوں کا اس ملک پر اس قدر مضبوط سیاسی قبضہ تھا کہ ایک عام شریف آدمی اس سیاست میں جگہ نہیں بنا سکتا تھا۔ کتنے ہی مخلص اور محب وطن سیاست میں آئے اور عوامی رد عمل و شعور دیکھ کر خاموشی سے بوریا بستر سمیٹ کرگمنام ہوگئے۔
خان صاحب! آپ کی جس چیز نے متاثر کیا وہ مستقل مزاجی اور ہار نہ ماننا ہے، آپ تھک نہیں رہے تھے اور مسلسل لڑ رہے تھے۔ پھر آپ پر کرپشن کا الزام نہیں تھا، آپ کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں تھا، آپ مفاد پرست نہیں قوم پرست تھے، چنانچہ ملک کے تمام وفادار قوم پرست بشمول دائیں بازو کے لوگ آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے۔ الیکشن 2013ء سے پہلے آپ نے جس شہر میں جلسہ کیا، عوام کا ایک جم غفیر وہاں اکٹھا ہوا۔ غریب اور متوسط لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے کیونکہ وہ غربت، بیروزگاری، فاقہ کشی، خانہ بدوشی، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، سفارش و رشوت کلچر، بیماریوں اور لاوارثی سے عاجز آچکے تھے۔ وہ آپ میں وہ رہنما دیکھ رہے تھے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا، جو ان کی مجبوریوں اور مفلوک الحالی پر نظر ڈالے گا۔ جبکہ ملک کا پڑھا لکھا اور خوش حال طبقہ آپ کے پیچھے اس لیے کھڑا تھا کہ وہ ملکی معیشت اور وسائل کا صحیح استعمال چاہتے تھے، وہ ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ہمارا ملک بیرونی قرضوں سے آزاد ہوکر معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل ہوجائے ، اس کے لیے کرپشن سے آزاد لیڈرشپ ضروری تھی جو آپ کی شکل میں دکھائی دیتی تھی۔
پھر الیکشن 2013 کے نتائج آتے ہیں۔ عوام نے آپ کو ووٹ ڈالا تھا، جیت ن لیگ گئی اور آپ اپوزیشن سیٹوں کے حق دار ٹھہرے۔ سب جانتے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے، اور آپ کا حق تھا کہ آپ اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاتے، چنانچہ آپ نے تمام قانونی طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد دھرنے کا اعلان کیا، اور عوام بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی حاضر ہوگئی کیونکہ بہرحال ان کے لیڈر کو انصاف چاہیے تھا۔ آپ نے جس جلسے میں بلایا، عوام پہنچی، آپ نے لاک ڈاؤن کال کی عوام ڈنڈے سوٹے کھاتی، حتیٰ کہ جان کے نذرانے پیش کرتی آپ کو انصاف کی فراہمی کے لیے سینہ سپر ہوئی۔ 2014ء اور اب 2016ء کے دھرنے اور دھرنے کے اعلان میں جب عوامی طاقت سے آپ نواز شریف پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو وزیراعظم کے استعفیٰ کے سوا آپ ہر عوامی مطالبہ پورا کرواسکتے تھے۔ آپ بغیر چھت دربدر پھرنے والے خانہ بدوشوں کے لیے مکان کا مطالبہ کرسکتے تھے۔ آپ ملک کے فاقہ زدہ عوام کے لیے خوراک اور روزگار کا مطالبہ منوا سکتے تھے۔ حکومت وقت کو سکولز اور کالجز سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم اور تعلیمی اخراجات کا بار اٹھانے پر مجبور کرسکتے تھے۔ اسپتالوں اور صحت و صفائی سے متعلقہ دوسرے اداروں میں اصلاحات کےذریعے صحت اور صفائی کی صورت حال کو یقینی بنا سکتے تھے۔ اور کچھ نہیں تو، آپ ادارے مضبوط کرواسکتے تھے۔ انتخابی اصلاحات کروا کر اگلے انتخابات میں دھاندلی کا راستہ بند کرسکتے تھے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے حق رائے دہندگی حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن آپ وزیر اعظم کے استعفے اور احتساب پر مشتمل دو نکاتی مطالبے پر کاربند رہے اور ہیں جس کا سب سے پہلا فائدہ آپ کی ذات کو ہے۔ یہ منتقم المزاج اور مفاد پرست طبیعت آپ کی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
عام انتخابات میں یہ ناچیز آپ کو ووٹ ڈالنے ملتان سے ساہیوال گیا تھا۔ اور اس مشقت کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد نہ تھا، میں کوئی پی ٹی آئی ورکر ہوں نہ ہی آپ کا جاں نثار تھا، اور میرا کوئی ماما یا تایا پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی نہیں لڑ رہا تھا۔ میں ایک نظریاتی ووٹر ہوں اور میں ایک نظریے پر ووٹ دے رہا تھا۔ آپ الیکشن نہیں جیت سکے اس کا افسوس ہمیں بھی ہے، لیکن آپ ہمارے دیے ہوئے مینڈیٹ سے اپوزیشن میں تو بیٹھے ناں؟ میں آپ سے بطور ایک نظریاتی ووٹر سوال کرتا ہوں کہ آپ نے حزب اختلاف کی کرسیوں پر بیٹھ کر اس عوام کے لیے کیا کیا ہے؟ چلیں کرنا تو حکومت وقت نے تھا، آپ صرف یہی بتادیں کہ آپ نے حکومت پر کچھ کرنے کے لیے کتنا دباؤ ڈالا ہے؟ کوئی ایک عوامی ایشو بتا دیں جس پر آپ نے حکومت کو دھرنے کی دھمکی دی ہو؟ اگر ایسا ہوتا کہ آپ عوامی ایشوز پر آواز بلند کرتے، حکومت وقت کان نہ دھرتی، یا جیسے لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے والا اس کا مزاج ہے، وہی اپناتی تو یقین مانیں آپ کو انقلاب کے لیے بنی گالہ سے باہر بھی نہ آنا پڑتا، اور یہ عوام ہی ان حکمرانوں کے گریبانوں تک پہنچ جاتی۔ آپ ان کو یہ احساس تو دلاتے کہ انہیں بھوکا، پیاسا، مفلوک الحال، پسماندہ، ننگے پاؤں، میلے کپڑوں میں رکھنے والے یہ حکمران ہیں جو پچھلے 40 سال سے اس پاک سرزمین کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور اس کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لینا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کی اپوزیشن کا مرکز و محور نواز شریف کی ذات بن کر رہ گئی ہے، اور ہم نظریاتی ووٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ لڑائی ہماری نہیں آپ کی ذاتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس مائنس ون سے آپ اس قوم کی قسمت بدل دیں گے تو معذرت کے ساتھ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ماضی میں یہ مائنس ون نہیں، پوری پوری جماعتیں مائنس ہوچکی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دوبارہ باریاں لے رہی ہیں۔ کیا اس سے پہلے ایسے مقام نہیں آئے جب لگتا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست دفن ہوچکی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز پر وہ وقت نہیں آیا جب ان جماعتوں کی ٹکٹس لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا؟ دونوں ہی جماعتیں کتنی ہی بار ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ہیں، آپ تو صرف استعفیٰ کی بات کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف و آصف زرداری جیل یاترا تک بھی کر چکے ہیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ آج پھر اس قوم پر مسلط ہیں۔گویا مائنس ون یا کسی بھی پارٹی کو مائنس کرنے سے کوئی بات نہیں بنے گی۔آپ کو سسٹم تبدیلی کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا۔ آپ کو ہر جہت میں محنت کرنا ہوگی۔ آپ صرف بیٹنگ میں بہتری لا کر میچ نہیں جیت سکتے، بلکہ فیلڈنگ اور باؤلنگ میں بھی بہتری لانی ہوگی۔
یہ کھلا خط آپ کے لیے ایک خاموش پیغام ہے۔ ابھی آپ کے پاس بطور اپوزیشن دو سال ہیں۔ کچھ کر کے دکھا دیں۔ الیکشن اصلاحات کروالیں۔ عوامی ایشوز پر حکومت کو کام کرنے پر مجبور کردیں۔ ورنہ جان لیں! جو آپ کو اٹھا کر عزت کی اس گدی پر بٹھا سکتے ہیں، وہ اتارنے میں بھی دیر نہیں کریں گے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے باقی سیاسی جماعتوں کے کارکن ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں اور اپنے رہنماؤں کا محاسبہ نہیں کرتے، آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا تو اس خوش فہمی سے باہر نکل آئیں۔ یاد رکھیں! اگر آپ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آپ کے ووٹرز باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ہیں تو اس بات کی فکر بھی کریں کہ انہیں مطمئن کرنے کے لیے آپ کو زیادہ سے بھی کچھ زیادہ کرنا ہوگا، ورنہ خالی نعروں سے انہیں بےوقوف بنانا آسان نہیں ہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے اس قوم کی یوتھ کو سیاسی طور پر متحرک کردیا ہے، اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی بھی قوم کی نوجوان نسل جاگ جائے تو وہ انقلاب کے لیے کسی رہنما کی محتاج نہیں رہتی. ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی اچھے رہنما کی موجودگی میں یہ انقلاب بغیر انارکی کے وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ جیسے بےداغ سیاست دان کی رہنمائی میں ہم اس قوم کی قسمت بدل ڈالیں۔
امید ہے آنے والے دو سالوں میں آپ کی کارکردگی ہمیں پھر آپ کو ووٹ دینے پر مجبور کردے گی۔
تبصرہ لکھیے