ہوم << انڈیا کی دہشتگردی ،غاصبیت اور مکاریاں - آفتاب یوسف

انڈیا کی دہشتگردی ،غاصبیت اور مکاریاں - آفتاب یوسف

ہندوستانی جنگی جنون نہ صرف وہاں بسنے والی اقلیتوں اس خطے بلکہ پوری دنیا کی سلامتی اوربقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔یوں تو برصغیر کی تقسیم کو انہتر برس گز چکے ہیں مگر تا حال اس نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے کا انکاری ہے.

بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ چائنہ کے ساتھ بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی انکے اندرونی معملات میں مداخلت کرتا رہتا ہے.بھارت نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کشمیر عوام پر کیا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی یہی نہیں بھارت کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم نہ صرف جنوبی ایشیاء کے امن کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ایک یقینی ایٹمی جنگ کا خطرہ بھی ٹال سکتی ہے۔ انڈیا پر قابض برہمن نے نہ صرف اڑوس پڑوس کے ممالک کے لیے درد سر ہے بلکہ خود انڈیا میں رہنے والوں کی زندگی بھی اس نے اجیرن کی ہوئی ہے۔

ذرا ایک نظر اسکا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان. انڈیا 20 کروڑ آبادی والے پاکستان سے اب تک تین بڑی جنگیں لڑ چکا ہے۔ انڈیا نے ہی اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی جس کے بعد مجبوراً پاکستان کو بھی ایٹم بنانا پڑا۔ انڈیا سالہاسال سے پاکستان کے خلاف ایک خوفناک پراکسی جنگ بھی لڑ رہا ہے جس کے لیے اس نے دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظمیوں سے روابط استوار کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں کل بھوشن، کے پی کے میں ٹی ٹی پی سابقہ امیر حکیم اللہ محسود کے بھائی لطف اللہ محسود اور کراچی مین ایم کیو ایم سیمت دیگر کئی دہشت گرد جماعتوں نے انڈین اینٹلی جنس ایجنسی راء کے لیے کام کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

چین، انڈیا نے 1962ء میں ایک ارب آبادی والے چین سے ایک جنگ لڑی اس میں بری طرح پٹا۔ اس طرح کچھ عرصہ پہلے بھی انکی چین سے ایک سرحدی جھڑپ ہو چکی ہے۔ انڈین دانشور کھلے عام اپنی حکومت کو چین کے خلاف جنگی تیاریوں کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔

کشمیر، سوا کروڑ آبادی والے کشمیر میں انڈیا نے 7 لاکھ فوج تعئنات کر رکھی ہے جسکی مدد سے وہ اب تک وہاں 1 لاکھ سے زائد انسانوں کو قتل کروا چکا ہے. حالت یہ ہے کہ وہاں پچھلے چار ماہ سے مسلسل کرفیو ہے اور انڈین افواج جانوروں کو شکار کرنے والی گنوں سے کشمیریوں کا شکار کر رہی ہیں۔

بنگلہ دیشں، انڈین اور بنگالی دانشوروں شرمیلا بھوس اور عبدالمومن چودھری کے مطابق محض پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے 71ء￿ کی جنگ میں انڈیا نے 3 لاکھ سے 30 لاکھ کے درمیان بنگالیوں کو قتل کیا اور ان کا الزام پاک فوج پر لگا کر بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کر دیا۔ آج 46 سال بعد انڈیا کے اشارے پر پاکستان کے حامیوں کو بنگلہ دیش میں پھانسیاں دی جا رہی ہیں تاکہ 20 کروڑ آبادی والے اس مسلمان ملک میں ایک بار پھر آگ لگائی جا سکے۔

افغانستان، 3 کروڑ آبادی والے افغانستان میں داعش کا سب سے بڑا سپورٹر اس وقت انڈیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف افغانستان میں افغان طالبان اور داعش کے درمیان خونریز جنگیں چل ہوتی رہتی ہیں۔ بلکہ انڈین حمایتی یافتہ دہشت گردوں کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کو کوششوں کو بھی سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور افغان طالبان کے ساتھ افغان حکومت کی مزاکرات کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیںاور پاک افغان باڈر پر بھی حالات انڈیا کے ہی اشاروں پراور مداخلت کے دریعے خراب کیے جا رہے ہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے دنیا بھر کی میڈیا پر یہ خبریں آئی تھیں کہ اجیت داوول سمیت انڈین اینٹلی جنس کے کئی اعلی افسران داعش کے ساتھ رابطوں میں ہیں جس کے بعد ہی افغانستان میں یہ سارا سلسلہ شروع ہوا۔ اقوام عالم کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ انڈیا کی حمایت یافتہ داعش نے نہ صرف خلیج کے ممالک میں تہلکہ مچا رکھا ہے بلکہ اب وہ یورپ میں بھی حملے کر رہی ہے۔

سری لنکا ، 2 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک سری لنکا میں انڈیا لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام نامی دہشت گرد تنظیم کو 30 سال تک سپورٹ کرتا رہا جس کے ہاتھوں نہ صرف ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون ہوا بلکہ دور جدید میں پہلی بار خودکش حملوں کا رواج بھی پڑا۔ یہ دنیا کی واحد دہشت گرد تنظیم تھی جسکی اپنی ائر فورس تھیسری لنکا کے ایک تہائی حصے پر قابض اس دہشت گرد تنظیم کو ختم کرنے میں پاک فوج نے سری لنکا کی مدد کی تھی۔

نیپال، 1978ء میں انڈیا نے ایک لمبی سرد جنگ کے بعد ڈھائی کرؤڑ آبادی والے چھوٹے سے ملک نیپال کو مجبور کیا کہ وہ اپنے " سکم " نامی علاقے سے دستبردار ہوجائے۔ لیکن اس کے بعد بھی انڈیا کا نیپال پر ظلم بند نہیں ہوا اور آج بھی اس نے نیپال کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ جسکی وجہ سے وہاں انڈیا مخالف جلسے اور ریلیاں زوروں پر ہیں۔

برما یا میاینمار، 5 کروڑ آبادی والے برما کے ساتھ انڈیا کے تعلقات آج تک ٹھیک نہٰیں ہو سکے۔ انڈیا کا دعوی ہے کہ وہ برما میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف برمی حکومت کی مدد کرتا ہے جبکہ برما کے اکثر لوگ انڈیا کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انڈیا وہاں آزادی کی تحریکوں کو سپورٹ کر رہا ہے۔

مالدیپ، چند لاکھ آبادی والے جزائز مالدیپ پر سیکیورٹی کے نام پر انڈیا اس وقت عملاً قابض ہو چکا ہے۔ وہاں کچھ لوگ انڈیا کے حامی ہیں اور زیادہ تر انڈیا سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں انڈیا ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اور اب ذرا انڈیا کے اندر رہنے والوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

دلت، دلتوں کی آبادی انڈیا میں 20 کروڑ سے زائد ہے۔ یہ انڈیا کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہیں لیکن ان کو قومی وسائل میں حصہ صرف پانچ فیصد ملتا ہے۔ انڈیا ٹوڈے نامی اخبار نے کچھ دن پہلے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ " دلتوں کو ان کے حقوق نہیں دلوائے جا سکے ہیں۔ آج بھی انکو پلید سمجھا جاتا ہے اور انکو چھونا حرام سمجھا جاتا ہے. انڈیا میں خودکشیوں اور جسمائی اعضاء بیچنے کی سب سے زیادہ شرح دلتوں میں پائی جاتی ہے جو اپنی احساس محرومی اور بھوک سے مجبور ہو کر یہ سب کرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ صرف چند دن پہلے ایک پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم نے خود کشی کر لی کیونکہ اسکو " دلت " ہونے کا طعنہ دیا گیا۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں ہر 18 منٹ میں دلتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک کیس رپورٹ ہو رہا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں روزانہ اوسطاً تین دلت خواتین کی عزت لوٹی جاتی ہے، دو دلتوں کو قتل کیا جاتا ہے اور ان کے دو گھر جلائے جاتے ہیں۔ جبکہ انڈیا کے اکثر علاقوں میں دلتوں کو تھانوں میں گھنسے کی بھی اجازت نہیں تاکہ وہ رپورٹ درج کروا سکیں۔

مسلمان، انڈیا کی کل آبادی کا 14 فیصد مسلمان ہیں جو تقریباً 17 کروڑ بنتی ہے۔ ان 14 فیصدمسلمانوں کا سرکاری نوکریوں میں حصہ محض 2.5% ہے۔ جبکہ آفیسر رینک کی سرکاری نوکریوں میں انکا حصہ محض 1.7% ہے۔ شائد یہ سن کر آپ حیران رہ جائیں کہ انڈین پارلیمنٹ ( لوک سبھا ) میں مسلمانوں کی نمائندگی محض صرف 4.2% ہے۔ حالیہ سرویز کے مطابق مسلمان انڈیا کی سب سیغریب اور تعلیم سے محروم اقلیت ہے۔ 52.2% مسلمان خط غریب کے نیچے اور 50.5% نا خواندہ(غیر تعلیم یافتہ) ہیں۔

ان 14فیصدمسلمانوں کی نمائندگی اگر کسی جگہ سب سے زیادہ ہے تو وہ انڈین جیلیں ہیں جہاں ٹاڈا نامی بدنام زمانہ قانون کے تحت گرفتار ہونے والے 90فیصدلوگ مسلمان ہیں اور جیلیں ان سے بھری ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ ہندو انتہا پسندوں کے مسلمانوں پر حملے روز کا معمول ہیں۔ انڈین دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا نعرہ ہے کہ "یا مسلمان انڈیا چھوڑ دیں یا ہندو بن جائیں"۔

1947ء سے 2016ء تک مسلمانوں کے خلاف کم و بیش 15 بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ بڑے حملوں سے مراد وہ حملے جن میں کم از کم 300 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ ان میں سے بعض حملوں میںتیس ہزارتک مسلمان قتل کیے گئے۔ جبکہ چھوٹے حملوں کا کوئی شمار نہیں وہ ہزاروں میں ہیں۔ محض گائے کاٹنے کے شبے میں ہی مسلمانوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ انڈیا صرف اپنے زیر قبضہ کشمیر میں ہی ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کر چکا ہے۔

عیسائی، عیسائیوں کی آبادی انڈیا میں ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ فوکس نیوز سمیت دنیا بھر کی مختلف نیوز سرورسز کے مطابق انڈیا عیسائیوں کے لیے بدترین ملک ہے اور وہاں عیسائیوں پر ایسے حملے ہوتے ہیں جیسے عراق میں ان پر داعش کر رہی ہے۔صرف سال 2015ء میں ملک بھر میں عیسائیوں پر 8000 حملے ہوئے۔ یہ سسلسلہ 2016ء￿ میں بھی جاری ہے۔ان کے علاوہ آر ایس ایس عیسائیوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم بھی چلا رہی ہے۔ آر ایس ایس کے مطابق انہوں نے پچھلی ایک دہائی میں کم از کم 15 سے 20 ہزار عیسائیوں کو ہندو بنایا۔ عیسائیوں کے چرچز جلانا انڈیا میں معمول کی بات ہے۔ عیسائیوں کی معاشی حالت بھی مسلمانوں اور دلتوں جیسی ہی ہے۔

سکھ، انڈیا میں سکھوں کی آبادی 2 کروڑ سے اوپرہے۔ 1984ء میں انڈین آرمی نے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کر کے نہ صرف ہزاروں سکھوں کو قتل کر دیا بلکہ گولڈن ٹیمپل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہچایا۔ جواب میں سکھوں نے اندرا گاندھی کو قتل کر دیا۔ اس پر ہندو انتہا پسندوں نے بھپر کر سکھوں کا قتل عام شروع کیا اور 10 ہزار سے زائد سکھوں کو تہ تیغ کر دیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ وہاں سکھوں کی لاشوں سے گٹر بند ہوگئے۔ سکھوں کے خلاف زیادتیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ معاشی حالات سے تنگ آکر دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں کرنی والی قوم، سب سے زیادہ جسمانی اعضاء بیچنے والی قوم، سب سے زیادہ فٹ پاتھوں پر سونے والی اور سب سے زیادہ چوہے کھانے والی قوم بھی ہندوستانی ہی ہیں۔ ان معاشی اور سماجی نا انصافیوں نے انڈیا میں بہت ساری بغاوتوں کو جنم دیا ہے۔ اس وقت بھی انڈیا میں آزادی کی کم از کم 140 تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان میں سے چند چیدہ چیدہ تحریکوں کے نام یہ ہیں۔

آزادی کشمیر، یہ سب سے پرانی تحریک ہے جو مقبوضہ کشمیر کے تقریباً سارے مسلمان اور سکھ ملکر پچھلے 70 سال سے چلا رہے ہیں اور آج بھی حالت یہ ہے کہ انڈیا نے کشمیر میں کم از کم 7 لاکھ فوج رکھی ہوئی ہے اور پچھلے چار ماہ سے کشمیر میں کرفیو رہا ہے جو شائد دنیا کا سب سے لمبا کرفیو ہو اب تک سو کے قریب لوگ شہید ہو چکے سولہ ہزار زخمی ہیں اور تقریباً چھ ہزار کے قریب لوگوں کو بیناء سے محروم کیا جا چکا ہے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیٔ ہے۔ لیکن کشمیریوں کے حوصلے ان کاجذبہ آزادی کو سرد نہیں کیا جا سکا ہے بلکہ وہ دن بدن توانا ہورہا ہے.

نکسلائٹس، اسکو نکسل باڑی تحریک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انڈیا کے 92 اضلاع میں پھیلی ہوئی ہے جن میں سے 12 کو انڈیا نے ریڈ زون قرار دے رکھا ہے۔ جھاڑ کھنڈ، بہار، پٹنہ، رانچی، رائے پوراور حیدر آباد سمیت انڈیا کی کئی ریاستیں اس تحریک سے متاثر ہیں جو انڈیا کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس تحریک کے پاس کم از کم 90 ہزار گوریلے ہیں۔

آسام، انڈین ریاست آسام آزادی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن سب سے بڑی میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ نامی تحریک ہے۔ اس تحریک کے پاس انڈین رپورٹس کے مطابق کم از کم 10 ہزار جنگجو ہیں۔ یہ تحریک انڈیا سے الگ ایک خودمختار مسلمان ریاست کا مطالبہ کر رہی ہے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ انڈین ریاست آسام میں پاکستانی جھڈنا لہرایا گیا۔ انہوں نے آسام کے کئی علاقوں سے انڈین حکومت کی رٹ ختم کی ہوئی ہے۔

خالصتان، خالصتان ہر سکھ کے دل کی آواز ہے۔ سکھ انڈیا میں اپنی ریاست قائم کرنے کے لیے آج بھی بے تاب ہیں۔ " خالصہ خالصتان کا کشمیر پاکستان کا" نعرہ سکھ لگاتے ہیں۔ وہ اپنی اس ریاست کے قیام کے لیے پاکستان سے مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سکھ خالصتان انڈین ریاستوں چندھی گڑھ، شملہ اور جے پور کے کچھ علاقوں پر بنانا چاہتے ہیں جہاں سکھوں کی اکثریت ہے۔ سکھ دنیا بھر میں کافی مالدار اور بہت طاقتور کمیونٹی ہے۔ وہ خالصتان بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

ناگالینڈ، انڈیا کی اس ریاست میں نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف ناگا لینڈ نامی تنظیم انڈیا سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی چھوٹی تحریکیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تنظیم کے اراکین کی تعداد 5000 سے اوپر ہے۔

تریپورا، یہ ایک چھوٹی سی انڈین ریاست ہے جہاں نیشنل لبریشن فرنٹ آف تھریپورا کام کر رہی ہے۔ یہ بھی کافی بڑی اور منظم تحریک ہے۔

تامل، انڈین ریاست کیرالہ کے آس پاس تاملز کی بہت بڑی آبادی ہے۔ یہ تاملز حقوق نہ ملنے پر اکثر انڈین حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں اور اپنی الگ شناخت کا مطالبہ یہاں بھی زوروں پر ہے۔

سیمی، یہ انڈیا سے آزادی لینے کے خواہشمند مسلمانوں کی تحریک ہے جسکو انڈیا نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ نریندر مودی کے بلوچستان میں مداخلت کے اعتراف کے بعد پاکستان کو اخلاقی جواز مل گیا ہے کہ انڈیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں پر توجہ دے۔ بلوچستان میں انڈیا کے پیدا کردہ مصنوعی احساس محرومی کے مقابلے میں انڈیا کے کروڑؤں لوگوں میں حقیقی احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ نریندر مودی کے اعتراف اور کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا جس کو ہم ضایٔع کر رہے ہیں کہ وہ چین کے ساتھ ملکر انڈیا کے مظلوموں کے لیے دنیا بھر میں آواز اٹھائے اور انکی ہر ممکن مدد کرے۔ مگر افسوس ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں مسلہ کشمیر پر موقف صرف بیانات کی حد تک محدود رہ گیا ہے .

ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر کر کر کے مزکورہ بالا معملات کو عالمی سطع پر بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے کی ضرور ت ہے. ہم پنامہ لیکس اور دھرنوں میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں اور انڈیا آئے روز ہمارے خلاف نہ صرف سرحدوں پر حملے کر رہا ہے. بلکہ ملک کے اندر دہشت گردی میں کو ئٹہ جیسے واقعات کروا رہا ہے. ہمارے حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔حالات نے ہمیں دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے‘ حالیہ واقعات سے جنگ کا امکان تو نہیں مگر تیاری ضروری ہے۔

اگر اس بھارتی جنگی جنون کے طفیل ہماری نوجوان نسل برہمن کی تنگ نظری‘ تعصب اور نظریہ پاکستان کی اصابت و افادیت سے آگاہ ہوتی اور سنبھل جاتی ہے تو غنیمت ہے مگر یہ کام محض باتوں سے نہیں ہو گا‘ ہر سطح پر ٹھوس‘ سنجیدہ اور سوچے سمجھے اقدامات کرنے ہوں گے۔ کاش ہم موجودہ مشکل صورتحال کو اْمید اور امکان میں بدل سکیں۔بھارت کے جنگی جنون ، کو عالمی برادری میں نمایاں کرنا اور فائدہ اٹھانا مشکل نہیں مگر اس میں محنت درکار ہوگی۔