قوم کیا چیز ہے، قوم کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!
اقبال
چھٹی کیا چیز ہے، چھٹی کی اہمیت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے نفس پرستی کے غلام!
صائمہ
ہم وہ بد قسمت قوم ہیں جو نہیں جانتی کہ اپنے بزرگوں کی یادوں اور کارناموں کو کیسے زندہ رکھا جائے، کیسے ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، کیسے اپنے بزرگوں کی بنائی ہوئی اسلامی تہزیب و ثقافت ،معاشرت اور اقدار و روایات کا دفاع کیا جائے۔ اپنے محنتی، جفا کش اور ایمان پرور اسلاف کو فراموش کر کے کون سی ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم سچ میں مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والی وہ روح پرور قوم ہیں جو ہم سب کے عظیم رہنما، حکیم الامت علامہ محمد اقبال دیکھنے کے خواہاں تھے۔ ہم دراصل وہ قوم ہیں جو ملت کے نام کی گہرائی اور اس کی بے پناہ وسعتوں کے مفہوم تک سے بھی واقف نہیں۔
آج پاکستان کے برائے نام حکمرانِ وقت، ہمارے عظیم بزرگوں کی کاوشوں سے حاصل ہونے والے پاکستان میں، اپنا حق سمجھتے ہوئے اس ملک کو لوٹنے میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں، وہ اٌنہی بزرگوں کی یاد کو قوم کے دلوں اور ذہنوں سے فراموش کر کے ،ان کی یادوں کو مٹا کے آخر کون سے مفادات کی تشفی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ پہلے غیروں سے گلہ تھا کہ
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
لیکن اب اپنے ہی حکمراں قوم کو خود فراموشی کی نیند سلانے پر بضد ہےلیکن زندہ قومیں جانتی ہیں کہ خود فراموشی موت ہے انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔
زمانے کے انداز بدلےگئے
نیا راگ ہے ساز بدلےگئے
جس قوم کے آستینوں میں پچھلے 69 سالوں ہمارے حکمرانوں جیسے سانپ چھپے بیٹھے ہوں اس قوم کو اپنےملک کے لیے خود کچھ کرنا ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہی تہذیبیں بنتی اور سنورتی ہیں اور ہمارے حکمران بھی آج ایسی ہی تاریخ رقم کر رہے ہیں، اسلاف فراموشی کی تاریخ، اقبال نے درست کہا تھا
گلا توگھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللّہ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ازل سے ہوتا آیا ہے کہ حق ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔اقبال ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ تھے اور ہم بحیثت ایک باشعور قوم اقبال اور ان کی تعلیمات کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ کیونکہ اقبال اقبال کبھی اپنی قوم سے مایوس نہیں ہوئے اور اقبال علم و عرفان کا وہ سمندر اور حکمت و معرفت کا وہ وہ بیش بہا ذخیرہ ہے جس نے اپنی قوم کو جینا اور زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے رہنے کی ترغیب دی ہے .
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
تبصرہ لکھیے