ہوم << اقبال دوستی کا تقاضا، اختلافی نقطہ نظر - علی داؤد

اقبال دوستی کا تقاضا، اختلافی نقطہ نظر - علی داؤد

شخصیات کے حوالے سے ہم من حیث القوم انتہا پسند واقع ہوئے ہیں. جس کو مان لیا اس کو پھر تمام ممکنہ اور غیر ممکنہ خوبیوں کا مجموعہ اور تمام کمزوریوں سے مبرا ماننا ایمان کا تقاضا سمجھا جاتا ہے، اور جس کو نہیں مانا اسے انسان ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے.
علامہ اقبال مرحوم ایک قد آور مسلمان شاعر اور ماضی کے اسلامی شعری ذخیرے (خصوصا مولانا روم رح) کو جدید لب و لہجے میں منتقل کرنے والی ایک عبقری شخصیت ہیں. مرحوم جذبات و احساسات کے حوالے سے ایک جاندار مسلمان تھے... باقی علم دین اور عمل کے اعتبار سے ویسے ہی تھے جیسے دانشور اور شاعر ہوا کرتے ہیں. عمل کا معاملہ تو واضح ہے، علمی طور پر بھی حقیقت جاننے کا آسان اور مستند طریقہ ان خطوط کا مطالعہ ہے جو اقبال نے ہم عصر علمائے کرام کو لکھے، واضح رہے کہ علامہ اقبال کے خطوط کی ایک بہت بڑی تعداد نہایت ہوشیاری کے ساتھ منظر عام سے غائب کر دی گئی ہے. فرزند اقبال، لاہور میوزیم اور اقبال اکیڈمی اس گمشدگی کے حوالے سے ایک دوسرے کو الزام دیتے رہتے ہیں.. اگر وہ ذخیرہ دستیاب ہوتا تو آل علی گڑھ کی تیار کردہ اقبال کی تصویر کی حقیقت بآسانی واضح ہو جاتی. ہمارے ایک استاد کہا کرتے ہیں کہ علامہ تین طرح کے ہوتے ہیں،
1.علامہ حقیقی جیسے علامہ انور شاہ کشمیری رح
2.علامہ اعزازی جیسے علامہ اقبال مرحوم
3.علامہ اشتہاری جیسے علامہ طاہرالقادری
ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اقبال چندہ مانگنے والے مولویوں کے خلاف تھے. شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اقبال کا اپنا گذر بھی چندے پر ہوتا تھا. مرحوم مسلمان والیان ریاست کو علمائے کرام کے سفارشی خطوط بھیجتے کہ میں مغرب کی طرف سے اسلام پر کیے گئے اعتراضات کا جواب لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میری مالی مدد کی جائے، اور متعدد جگہوں سے وظیفہ وصول فرماتے. اب یہ کہنا کہ اقبال فلاں قسم کے مولوی کو برا کہتے تھے یا فلاں قسم کے. سوال یہ ہے کہ وہ کس حیثیت سے برا کہتے تھے. اصل بات ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے کہہ دی ہے کہ کیا اقبال خود علم و عمل کے حوالے سے اس قابل تھے کہ وہ علماء کی اصلاح کریں. یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے والدین کی ہجو بیان کرے اور اسے ان کی اصلاح کا ذریعہ سمجھے.
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علیگڑھ نے اسلامیان برصغیر کو سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی استعمار کا کارآمد کل پرزہ بنانے اور مذکورہ نظام کو مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنانے کےلیے جو بےسروپا فلسفہ گھڑ رکھا ہے، ہم آج اپنی ریاستی ضرورتوں کے تحت اقبال مرحوم کو اس فلسفے کا کبھی بانی اور کبھی شارح کہہ کر رگڑتے رہتے ہیں حالانکہ جو باقاعدہ مدون اور مستقل عقلیات ہیں، وہ مغربی فلسفہ ہو یا اسلامی علم کلام، وہاں اقبال مرحوم کا کوئی ذکر نہیں ملتا، لہذا صحیح اقبال دوستی کا تقاضا یہی ہے کہ اقبال کا مقام حقیقت سے بڑھا کر اور انہیں اسلامی روایت کے بالمقابل لانے کے بجائے انہیں ان کی جگہ پر رکھیں.
فی الوقت جو سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلہ ہے، وہ یہ کہ اقبال مرحوم کے معاملات تو ان کے ساتھ رہے، عصرحاضر میں علی گڑھ دانش کے پاس صرف اور صرف ایک اقبال مرحوم ہی کی شخصیت ہے جن کی آڑ میں ماڈرن اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لہٰذا اقبال مرحوم کے بارے مفسر قرآن وغیرہ جیسی بعید از حقیقت باتوں سے اجتناب اب اور بھی ضروری ہو چکا ہے. ایک عرصے سے خیال تھا کہ علامہ اقبال مرحوم بارے کچھ وضاحتیں درکار ہیں مگر کبھی وقت نہ نکال پایا. محمد فیصل شہزاد نے دلیل پر اپنی تحریر کے ذریعے بات شروع کی تو چند ایک چیزیں جلدی میں لکھ دیں. اقبال مرحوم کی شخصیت کا سب سے خطرناک پہلو ان کے مشہور زمانہ خطبات ہیں جو انگریزی زبان میں ہونے اور اپنے فلسفیانہ انداز بیان کی وجہ سے علمائے کرام کی گرفت سے اب تک بچے ہوئے ہیں، حالانکہ ان خطبات کے راہ راست سے ہٹے ہونے میں کوئی دو رائے نہیں. کوئی قابل ذکر قرینہ نہ ہونے کے باوجود ہم مرحوم سے حسن ظن رکھتے ہیں کہ آخری عمر میں علمائے کرام کی صحبت کی وجہ سے توبہ اور رجوع کی توفیق ملی ہوگی، لہذا اس موضوع کو یہاں نہیں چھیڑا گیا.

Comments

Click here to post a comment