ہوم << شہدائے جموں کی قربانی اور حالیہ تحریک آزادی کشمیر - انام کشمیری

شہدائے جموں کی قربانی اور حالیہ تحریک آزادی کشمیر - انام کشمیری

کشمیرکاصوبہ جموں‘ پاکستان کے صوبے پنجاب سے متصل دس اضلاع پر مشتمل ایک میدانی علاقہ ہے جہاں کی آبادی اس وقت 50 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں ایک مختاط اندازے کے مطابق ہندو65فیصد‘ مسلمان31فیصد اورباقی لوگ دیگرمذاہب کے پیروکار ہیں۔

یہ امرقابل ذکرہے کہ جموں کی آبادی میں ہندئوں کے زیادہ تناسب کی بنیادی وجہ آزادکشمیر کے قیام کے دوران پونچھ‘ کوٹلی‘مظفرآباد اورمیرپورسمیت پنجاب سے ہندوئوں کے جموں کی جانب ہجرت ہے۔مقبوضہ کشمیر جواس وقت تین صوبوں جموں‘ کشمیر اورلداخ پر مشتمل ہے ، کی کل آبادی تقریباًایک کروڑ دولاکھ سے زائد ہے جس میں مسلمانوں کا مجموعی تناسب68فیصداورہندوئوں کا30فیصدہے۔ سب سے زیادہ مسلمان صوبہ کشمیر میں آبادہیں جہاں ان کا تناسب 97 فیصد سے بھی زائد ہے جبکہ لداخ میں ان کی تعداد 48فیصد‘ہندوئوں کی 6فیصد اوربدھ مت سمیت دیگرذاتوں کی 46 فیصد ہے۔

مؤرخین اورمقامی آبادی کے بقول جموں کی بنیادراجہ جمبولوچن نے چودہ سوقبل مسیح میں رکھی تھی۔ کہاجاتاہے کہ وہ اپنی شکاری مہم کے دوران دریائے توی پرپہنچاتویہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ وہاں پر شیر اور بکری ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے پانی پی رہے ہیں۔ اس منظرنے راجہ جامبوکو بے حدحیران کردیااوروہ شکار کاارادہ ترک کرکے واپس اپنے ساتھیوں کے پاس چلاگیا۔ اس دوران راجہ کے ذہن میں یہی تھاکہ یہ جگہ جہاں شیراوربکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں‘ یقینا امن و آشتی کاگہوارہ ہے چنانچہ اس نے یہیں پرآبادہونے کافیصلہ کرلیا ۔ اس نے جو چھوٹاساشہرآبادکیااس کانام اپنے نام پر جمبونگررکھاجووقت کے ساتھ ساتھ بگڑکر جموں بن گیا۔

جمبوکے بھائی کانام راجہ باہولوچن تھاجس نے دریاکے ساتھ ایک قلعہ تعمیرکیا۔باہوکے نام سے منسوب یہ قلعہ جموں میں ایک تاریخی عمارت ہے ۔مؤرخین کایہ بھی کہناہے کہ جموں شہر کاتعلق ہڑپہ کی تہذیب سے بھی رہاہے۔ تحریک آزادیٔ کشمیر کابنیادی نکتہ ٔ آغاز13جولائی1931ء کو سرینگر میں ہونے والا وہ خونچکاں واقعہ ہے جس میں اذانِ ظہر کی تکمیل کیلئے 22مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے اپنے مستقبل کی ہمہ گیر فکر کرتے ہوئے سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس قائم کی۔ تحریک آزادیٔ کشمیر کے اول روز سے ہی جموں اور وادی کے مسلمان رہنما ایک دوسرے کی معیت میں قوم کی رہنمائی و قیادت کا فریضہ بخوبی سرانجام دیتے رہے۔

جموں کے مسلمان اگرچہ ہندوئوں کے غلبے کی وجہ سے بہترمعیارزندگی کے حامل نہ تھے لیکن اس کے باوجود ان کے اندرآزادی کی واضح سوچ اور فکر موجود تھی۔ یہی حال وادی کے مسلمانوں کا تھا جو اگرچہ بھاری اکثریت کے حامل تھے لیکن اس کے باوجود بیگار اور دیگر حکومتی حربوں کے باعث بدترزندگی بسرکرنے پر مجبور تھے ۔ چنانچہ جموں اور وادی کے مسلمان رہنمائوں نے مل کر آزادی کی شمع روشن کی تآنکہ کہ یہ تحریک 19جولائی 1947ء کے مبارک دن تک آن پہنچی جب کشمیر کے غیور مسلمانوںنے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی بابت قرارداد بھارتی اکثریت سے منظور کی۔

اب ریاست کے مہاراجہ سمیت ہندوسامراج اور ہندوستانی رہنمائوں پر واضح ہوچکا تھا کہ کشمیری مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ وہ کس منزل کی خواہش اورتمنا رکھتے ہیں۔ اس چیز نے انہیں برانگیختہ کردیا ۔ وہ اپنی کوتلیائی چانکیائی سازش کے پینترے بدلتے ہوئے میدان میں نکلے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ تبدیل کرنے کی تگ و دو کرنے لگے۔ ریاستی مسلمانوں نے ان اقدامات کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہونے کا اعلان کردیا۔ ڈوگرہ راج اوربالخصوص مہاراجہ ہری سنگھ کشمیری مسلمانوں کے ان جذبات سے غافل نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے فی الوقت کوئی قدم نہیں اٹھایاتو آنے والاکل اس کے اقتدارکے سورج کے غروب ہونے کادن ہوگا.

چنانچہ اس نے نہایت ہوشیاری سے پہلے تواپنی فوج کوحکم دیاکہ وہ مسلمانوںسے ہرقسم کا ہتھیارضبط کرلے خواہ اس کاتعلق فوج یاپولیس سے ہویاوہ کوئی عام شہری ہو۔ مہاراجہ ہری سنگھ ‘ جس کاخاندان 1846میں معاہدہ امرتسرکے بعد سے کشمیر پر حکمرانی کررہاتھا.جب انگریزوں نے 75لاکھ رائج الوقت سکہ نانک شاہی کے عوض کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کردیاتھا،کے اس فیصلے نے مسلمانوں کو بھڑکادیا۔ وہ یہ سمجھ گئے کہ مہاراجہ چالاکی سے ان کے ہتھیار حاصل کرناچاہتاہے تاکہ وہ کسی قسم کی بغاوت یاسرکشی نہ کرسکیں حالانکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوںکو اس امرکایقین دلایا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کافیصلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق کیاجائے گااورظاہرہے کشمیرمیں اکثریت مسلمانوں کی تھی .

اس لئے قانونِ تقسیمِ ہند کی روسے یہ یقینی تھاکہ کشمیرکاالحاق پاکستا ن کے ساتھ ہی ہوگا۔بعد میں جب کشمیریوں نے جہادکاعلم بلندکیا اورآزادکشمیر کا علاقہ بشمول گلگت و بلتستان آزادکروالیا تومہاراجہ سری نگرسے بھاگ کرجموں چلاگیا۔ڈوگرہ فوج کی بڑی تعدادجموںمیں موجود تھی ۔ جموں کے مسلمانوں کو خطرہ تھاکہ یہ فوج ان کاقتلِ عام کریگی لیکن حیرت انگیزطورپر حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیاکہ جومسلمان پاکستان کی جانب ہجرت کرناچاہتے ہیں وہ کھلے میدان میں جمع ہوجائیں تاکہ انہیں فوج کی گاڑیوں پر بحفاظت پاکستان پہنچایاجاسکے۔یہ ڈوگرہ حکومت کی ایک چال تھی جس کا مقصد مسلمانوں کوشہرسے نکال کر کسی ویران اورسنسان جگہ پر لے جاکرانہیں ابدی نیندسلاناتھا۔

جموں کے مسلمانوں کو وادی یاکشمیرکے دیگرعلاقوں سے ابھی تک کوئی ایسی اطلاع نہیں پہنچی تھی جوانہیں ڈوگرہ فوج سے متعلق کسی قسم کے شکوک میں مبتلاکرتی چنانچہ وہ ضروری سامان کے ہمراہ اپنے گھروں سے نکلے اورشہرکے وسط میں واقع ایک بڑے میدان میں جمع ہوگئے جہاں سے انہیں لاریوں میں پاکستان لے جایاجاناتھا۔ وقفے وقفے سے مسلمانوں سے بھری لاریوں کے قافلے یہاں سے نکلتے اورپاکستا ن کی جانب روانہ ہوجاتے۔ میدان دھیرے دھیرے خالی ہونے لگا۔ہرچہرہ پرسکون تھاکہ وہ کچھ دیربعد ہی اپنی منزل مقصود پرہونگے۔ اس منزل پرجس تک پہنچنے کا خواب وہ گزشتہ ایک دھائی سے دیکھ رہے تھے اورجس خواب کے شرمندۂ تعبیرہونے کیلئے انہوں نے بھرپورجدوجہد کی تھی .

لیکن وہ سب اس بات سے یکسرلاعلم تھے کہ ان کے چہروں پر اطمینان کی یہ جھلک جلد ہی موت کے کرب میں مبتلاہونے والی ہے. ایک اذیت ناک موت کے کرب میں۔یہ قافلے وقفوں وقفوں سے جب شہرسے کچھ دور ویران و سنسان جگہ پر پہنچتے رہے تو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ان پر ڈوگرہ فوجیوں اورہندونوجوانوں کی جانب سے بھرپورفائرنگ کی جاتی رہی ۔ اگرکوئی فائرسے بچ گیاتواسے نیزے اوربھالے سے موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ کوئی بھی شخص ایساباقی نہیں بچاتھاجوکسی طرح پیچھے شہر میں پہنچ کر اپنے باقی ساتھیوں کو اس خونیں واقعہ کی اطلاع دیتا چنانچہ 6 نومبر کی شام تک اڑھائی لاکھ مسلمان ابدی نیندسوگئے ۔

منصوبہ بندی اس انداز میں کی گئی تھی کہ کئی روز تک اس سانحہ کی اطلاع شہر میں نہیں پہنچ پائی اورجب شہروالوںکو پتاچلا توایک کہرام مچ گیالیکن تب تک شہر میں بہت کم مسلمان باقی بچے تھے جو سوائے آہ و فغاں کرنے کے اورکچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اس واقعہ کی یاد میں اورجموں کے ان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے دنیابھر میں مقیم کشمیری ہرسال چھ نومبرکویومِ شہدائے جموں اس عزم اورارادے کے ساتھ مناتے ہیں کہ ان شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی آخری کشمیری تک اورآخری کشمیری کے آخری قطرہ ٔ خون تک جاری رہے گی۔

ایک روز آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگااوروہ ارضِ پاک جہاں ان اڑھائی لاکھ شہداء نے قربانی دی‘ وہاں پر آزادی کاپرچم ضروربلندہوکررہے گا۔ تحریک آزادی ٔ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں بھی کشمیری نوجوان اور بچے اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سبز ہلالی پرچم ہاتھوں میں تھامے اپنی منزل کا بخوبی اظہار کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کاقومی پرچم تھامے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے زبان سے الحاق پاکستان کا نعرہ ہی بلند کررہے ہیں۔ حالیہ چار ماہ کے دوران تحریک آزادیٔ کشمیر نے نئی کروٹ لی ہے۔

جس تحریک کو کچلنے کیلئے بھارت نے تاخیری حربے اختیار کیے آج کشمیریوں کی چوتھی نسل اس تحریک کو اپنے خون سے سینچ رہی ہے۔ جس سرکشی کو کچلنے کیلئے بھارت کی آٹھ لاکھ فوج تعینات ہے وہ معصوموں کے روپ میں ہرروز بہادری اور جرأت کے نئے قصے سناتی ہے۔