مغربی میڈیا ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر جس وجہ سے مایوس و متفکر ہے، اس کا اندازہ درج ذیل لنک پر دیے گئے ایک مضمون سے لگایا جاسکتا ہے.
http://www.foxnews.com/opinion/2016/07/16/turkeys-last-hope-dies.html
کیا جمہوریت پسند مغربی مفکرین کے یہ خیالات ان کے دوغلے پن کی علامت ہیں؟ ہرگز بھی نہیں، بلکہ یہ اور اس قسم کے مضامین ہی جمہوریت کے "اصل چہرے" کی عکاسی کرتے ہیں کہ جمہوریت کا اصلی معنی و مقصد لبرل سیکولر نظم کی بالادستی ہے. اگر جمہوریت (ووٹنگ کے عمل) کو اس کے سوا کسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو مقامی و عالمی طاقتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں کا تختہ الٹ کر حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو "اصل مقصد" کی حفاظت کرسکتے ہوں.
جمہوری مفکرین کا یہ مفروضہ تھا کہ انسان کو جب بھی رائے دہی کا حق ملے گا وہ آزادی ہی کو اختیار کرے گا. پھر اس مفروضے کو عملی دنیا میں نافذ رکھنے کے لیے جمہوری اقتدار کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک مستقل مقتدر ادارے (یعنی عدلیہ، فوج و انتظامیہ) جہاں لوگ مستقل طور پر تعینات رہتے ہیں اور دوسرا غیر مستقل ادارہ (یعنی پارلیمنٹ) جہاں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں. چنانچہ اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ مستقل اداروں میں اقتدار انھی لوگوں کے ہاتھ میں رہے جو سرمایہ دارانہ مقاصد اور علمیت کے غلبے پر مکمل یقین رکھتے ہوں (یہی وجہ ہے کہ مستقل اداروں میں جمہوری عمل نافذ نہیں، وہاں "میرٹ" کا اصول لاگو ہے)۔ اس تقسیم کے بعد جمہوری مفکرین کا خیال تھا کہ "جنرل ول" (یعنی آزادی کی بالادستی کا اصول) "ول آف آل" (اکثریت کی رائے) کے "غلط اظہار" سے محفوظ رہے گا۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ مغربی مفکرین کی امیدیں بارآور نہیں ہوئیں، چنانچہ اسلامی تنظیمیں عین جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار کی کنجیوں تک جاپہنچیں۔ اب یہ مغربی مفکرین فکر کے مارے انگلیاں چبا رہے ہیں اور اس مضمون میں بھی اسی کا اظہار کیا گیا ہے کہ دیکھو اردگان نے عدلیہ اور فوج (مستقل اداروں) میں بھی اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ لگا دیے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ اقتدار مستقل طور پر اسلامی لوگوں کے پاس محفوظ ہونے لگا ہے. ان مفکرین کا اوبامہ سے بجا طور پر تقاضا ہے کہ اوبامہ لبرل جمہوری نظام کے دفاع اور اسے لاحق خطرات کو ختم کرنے میں امریکہ کی عالمی ذمہ دارای کو ادا کرے.
اور قرآنی الفاظ "ماتخفی صدورھم اکبر" کے مصداق اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ بہت کم و ھلکا ہے، وہ بھی ایک ایسی اسلامی پارٹی کے اقتدار کے تناظر میں کہ جو کچھ بہت زیادہ radical ایجنڈا بھی نہیں رکھتی
تبصرہ لکھیے