ہوم << شادی کے تین طریقے - فرقان علی

شادی کے تین طریقے - فرقان علی

فرقان علیشادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا لڈو ہے کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے. سیانے کہتے ہیں کہ شادی کے اس لڈو کو نہ کھانے سے کھا کر پچھتانا زیادہ بہتر ہے۔ ہمارے یار دوست جوماضی میں اس لڈو کو کھانے کا تجربہ کرچکے ہیں، وہ اس لڈو کے بارے میں کچھ اس طرح سے رائے دیتے ہیں کہ! شادی کا لڈو کھانا اتنا مشکل نہیں جتنا اسے ہضم کرنا۔ خواتین و حضرات گو کہ ہم نے شادی بےشک ایک ہی کی ہے مگر باراتیں بہت دیکھی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے نتائج بھی۔ یعنی کبھی شادی کو محبت کا آغاز بنتے دیکھا تو کبھی شادی محبت کا انجام ثابت ہوئی۔ ہمارے ملک میں شادیوں کی تقریبات تقریبا ایک ہی طرز پر ہوا کرتی ہیں، و ہی رسمیں، و ہی ڈھول ڈھمکا، وہی ہلا گلا، بھنگڑے، شور شرابا یعنی فل ٹائم موج میلہ اور ان موج میلوں میں بعض اوقات لڑائی جھگڑا بھی۔ خیر قصہ مختصر، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ہماری طرف سے آپ احباب کو شادی مبارک اور نہیں تو پھر ہماری طرف سے آپ کو خیر مبارک۔

مستقبل میں اگر آپ اس لڈو کو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کی سہولت کے خاطر شادی کرنے کے تین طریقے اور ان کے فوائد اور نقصانات بتائے دیتے ہیں، باقی آپ کی قسمت۔
طریقوں کے ساتھ ساتھ ان کے جملہ حقوق بھی آپ کو دیےجاتےہیں، وہ بھی بالکل مفت ،اب آپ کا جس طریقے پر بھی دل مانے، ٹھوک ڈالیں۔

1. یہ ایک قدیم اور سب سے زیادہ قابل اعتبار طریق کار ہے۔ اس طریقے میں دولہا دولہن کے والدین آپس میں مل جل کے رشتہ طے کرتے ہیں اور اس میں بڑوں کی پسند کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ والدین چونکہ کے تجربہ کار ہوتے ہیں اور انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا ہوتا ہے اور بحیثیت والدین وہ اپنی اولاد کے مزاج سے بھی واقف ہوتے ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیے ایسے شریک حیات کا انتخاب کریں جو ان کے گھر، ان کے ماحول، ان کے طورطریقوں اور معاشی حالات سے ہم آہنگ ہو۔ اس لیے نمبر ایک طریقہ پر کی گئی شادیوں کی کامیابی کےنتائج باقی طریقوں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر ہوتے ہیں۔ آج کل اس طریقے میں والدین میرج بیورو کی بھی خدمات حاصل کرتے ہیں جس کے لیے بہرحال احتیاط لازم ہے.

2. جیسا کہ نمبر سے ہی ظاہر ہے کہ یہ دونمبر طریقہ ہے لیکن آج کل اس طریقے پر ہونے والی شادیوں کا چرچا بھی عام ہے۔ ویسے اس طریقہ کو کسی طور بھی قابل بھروسہ نہیں کہا جا سکتا اور اس سے بچنے میں ہی انسان کی عافیت ہے۔ یہ صرف میری ذاتی رائے نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طریقے پر کی گئی شادیوں کی کامیابی کے امکانات پچاس فیصد سے بھی کم ہیں اور بعض اوقات تو اس طریقے پر کی گئی شادیاں سال بھر بھی نہیں چل پاتیں۔ میری اتنی وضاحت کرنے پر اب تو آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ نمبر دو طریقہ ہے کیا؟ جی جناب بالکل صحیح سمجھے، یعنی نمبر دو طریقے میں لڑکا لڑکی خود ہی مل جل ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں، زندگی ساتھ گزارنے کے عہد و پیمان بھی ہوجاتے ہیں اور اس کا دو نمبر پہلو یہ بھی ہے کہ خود ہی مل جل کے شادی بھی کر لیتے ہیں اور بعد میں اس کی اطلاع والدین کو دے دی جاتی ہے۔ اسے ساری زندگی دولہا دلہن لو میرج کہتے اور معاشرہ بھاگ کر کی جانے والی شادی۔ ویسے آج تک مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس طریقے پر کی جانے والی شادی کو بھاگ کر کی جانے والی شادی کیوں کہتے ہیں۔ آیا دولہا دولہن اس میں بھاگتے بھاگتے قاضی کے پاس جاتے ہیں یا پھر قاضی بھاگتے پھرتے نکاح پڑھاتا ہے؟ خیر اس کا انجام بھی اکثر بھاگنے میں ہی نکلتا ہے۔

3. گو کہ یہ طریقہ نمبر دو کے بھی بعد میں آتا ہے تاہم نمبر دو سے کافی بہتر ہے۔ اس طریقے پر عمل کرنے والے حقیقی معنوں میں اس قابل ہوتے ہیں جن سے محبت کی جائے یا وہ کسی سے محبت کریں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ محبتیں کیا ہوتی ہیں اور انھیں کیسے نبھایا جاتا ہے۔ اس طریقے پر عمل کرنے والے لوگ اگر ایک دوسرے کو پسند کر لیں تب بھی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف نہیں جاتے۔ اگر والدین کی پسند شامل ہوگئی تو پھر ہوگیا منہ میٹھا۔ اگر نہیں تو پھر یہ والدین کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی نئی محبت کو پانے کے لیے اپنوں کی دی ہوئی پرانی محبتیں نہیں بھولتے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ شادی ایک نیک کام ہے اور نیک کاموں کو کبھی دو نمبر طریقے سے نہیں کیا جاتا۔ ہمارے نزدیک یہ طریقہ باقی کے دونوں طریقوں سے بہتر ہے اور اسے پذیرائی بھی ملنی چاہیے تاکہ فریقین (والدین اور اولاد) میں افہام و تفہیم برقرار رہ سکے اور کسی کو کسی سے گلہ نہ ہو.

(فرقان علی دس سال سے کویت میں مقیم ہیں، ایک فیشن برانڈ سے وابستہ ہیں اور ساتھ جزوقتی بلاگر ہیں)

Comments

Click here to post a comment