کچھ دیر پہلے ایک تازہ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اسلام، لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ملک اور عیسائیت کے گڑھ امریکا میں تیسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے مسلمان چوتھے نمبر پر آگئے ہیں۔ سنسس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق کل امریکی آبادی کا ایک فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو لگ بھگ 33 لاکھ بنتے ہیں، تاہم مسلمان تنظیموں کے مطابق اصل تعداد 70 لاکھ سے بھی زاید ہیں تو صرف نیویارک سٹی میں ہی 8 سے 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے ایک بار پھر اس آفاقی سچائی پر یقین آگیا کہ حق ہمیشہ غالب آ کر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے، کیونکہ حق آیا ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ اسلام کی پراثر تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے اہل مغرب یکجا ہوکر ایک عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے بیٹھے ہیں، لیکن ان کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے،کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ ہر بار اسلام کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا فائدہ مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے، کیونکہ اہل مغرب اسلام کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اسلام موضوع بحث بنتا ہے۔ لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہوکر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد ایسا ہی ہوا۔نائن الیون کے بعد امریکا نے تین درجن ممالک کے ساتھ ملک کر اسلام کو مٹانے کے لیے اسلامی دنیا پر دھاوا بول دیا اور بیشتر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ ان کا سکون چھین لیا۔دنیا بھر میں مسلمانوں کو بزور طاقت دبانے کی ہر عسکری کارروائی کو حق بجانب قرار دیا گیا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسلام دشمنوں کا خیال تھا کہ ”غلبہ اسلام“ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ”نیو ورلڈ آرڈر“ نافذ کر دیا جائے گا۔ اہل مغرب نے پوری قوت سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ساری دنیا میں موضوع بحث بن گئے۔ اسلام امریکا و یورپ کے عوام کی توجہ و دل چسپی کا محور بن گیا۔ تاریخ میں پہلی باربھاری تعداد میں قرآن کریم کے نسخے اور اسلامی کتب امریکی و یورپی مارکیٹوں میں کثرت سے فروخت ہوئیں۔ یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنیوالوں کا تانتا بندھ گیا۔ یورپ وامریکا کے سیکڑوں اداروں نے اسلامک اسٹڈیزکے شعبے قائم کیے، اسی مطالعہ وتحقیق کی بدولت اسلام سے متاثر ہوکر مغرب کے ذہین اور اعلیٰ دماغ اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی یورپ کی بڑی بڑی شخصیات نے اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لے لی۔
اسلام کے خلاف یورپ کے پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہاں سب سے زیادہ لفظ ”محمد“ اور ”اسلام“ کو سرچ کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی شہرت یافتہ بلاگ پیپل کین چینج دی ورلڈ نے انکشاف کیا ہے کہ رمضان المبارک میں دنیا بھر میں استعمال ہونیوالے سرچ انجن گوگل پر صارفین کی طرف سے سرچ کیے جانے والے الفاظ میں لفظ ”محمد“ کوسب سے زیادہ سرچ کیا گیا، جب کہ عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا ایجنسی میڈیا ڈورکی ایک تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق عالمی مذاہب میں لفظ ”اسلام“ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ پوری دنیا میں اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تحقیق و مطالعے کا شوق عام ہوا اور غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم اسٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہد حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکا و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام تر مفادات سے بالاتر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ سلام کے خلاف تمام کوششوں کے باوجود آج اسلام مغرب میں سب سے زیادہ مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔
اسلام سے خوفزدہ امریکا اور اہم مغرب نے اپنے ممالک میں بھی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی، لیکن یہ بھی اسلام کی قبولیت میں کمی کا باعث بہ بن سکا۔محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے، وہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز”ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ“جیتا اوراولمپک میں سونے کے تمغے کے علاوہ شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن بھی جیتی۔ وہ تین مرتبہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے باکسر تھے۔ محمد علی کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو شکست دی۔ اس کے بعد مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا۔ باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انھوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آو¿ٹ اسکور کیا۔ اس طرح وہ 20 ویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی قرار پائے۔ محمد علی کلے اپنے کیریئر کے آغاز میں عیسائی تھے، نام تھا کیسیس کلے۔ عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ان کا نام محمد علی رکھا گیا۔ جب محمد علی نے اسلام قبول کیا تو یورپی معاشرے نے اس عظیم ترین قابل قدرکھلاڑی کو اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح سے زچ کرنا شروع کردیا۔ جس دن انھوں نے پریس کانفرنس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ایک امریکی صحافی نے پوچھا کہ کیا تم واقعی مسلمان ہوگئے ہو؟ انھوں نے کہا ”ہاں“ تو صحافی نے طنزاً کہا:
”A BLACK MUSLIM ایک کالا مسلمان“
محمد علی کلے نے فوراً کہا کہ تم لوگوں نے کبھی کسی کو کالا عیسائی یا کالا یہودی کیوں نہیں کہا؟صرف مسلمان کو ہی کہتے ہو۔
انھی دنوں امریکا ویت نام میں قتل عام کررہا تھا، امریکا میں ہر صحت مند نوجوان پر فوج میں بھرتی ہوکر ویت نام جانا ضروری تھا۔چرچ کے پادری اس سے مستثنیٰ تھے۔محمد علی اس وقت اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ایک دن اس عالمی چیمپیئن کو کہا گیا کہ تمہیں آرمی میں جانا ہوگا، انھوں نے جواب دیا کہ میں امریکا کے قانون کے مطابق فوج سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ میری حیثیت بھی مذہب اسلام میں ایک پادری کی طرح ہے۔ لیکن امریکا کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت ان کے پیچھے پڑگئی۔محمد علی کلے کو فوج میں جانے سے انکار کرنے پر پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد علی سے باکسنگ کا اعزاز بھی واپس لے لیا۔ 11ستمبر کے بعد ایک دن محمد علی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرمیں مرنے والوں سے یکجہتی کرنے کے لیے آئے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور دہشت گردوں کا مذہب ایک ہے؟“ انھوں نے جواب دیا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور ہٹلر کا مذہب ایک ہے؟“ محمد علی کو ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے باوجود صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا تھا۔
امریکا و یورپ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے اہل مغرب انتہائی خوفزدہ ہیں۔ یورپ کے لوگ اسلام کو انتہائی طاقتور، دل کش اور اثرانگیز محسوس کرتے ہیں، اسی لیے اسلام کے پھیلاوکے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اورآئے روز مختلف طریقوں سے اپنے اسی خوف اور ڈرکا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ یورپ میں اسلام فوبیا کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ملکوں میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسلام کو خطے کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں”یورپ میں جو مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے اسلام کا عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔“
اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آیندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں 9 لاکھ 40 ہزار مسلمان آباد ہیں جو 2030ء تک 20 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جو 2030ء تک بڑھ کر 60 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائیںگے۔ شمالی امریکا میں 1990ء سے 2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ آنے والے 20 سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80 لاکھ 90 ہزار ہونے کا امکان ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر 50 لاکھ 60 ہزار اور فرانس میں 40 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 90 ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جبکہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔
فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ،جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی خاتون صحافی اوریانہ فلاسی کہتی ہیں کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے، یورپ میں اگر چار افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کررہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام کو دبانے کی جتنی بھی کوشش کرلیں لیکن اسلام اسی طرح بڑھتا جائے گا جس طرح امریکا میں بڑھ رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے