پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیور کون ہوسکتا ہے اور اس نے ایسی حالت میں قتل کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ بیوی کو اس حالت میں دیکھنے والے شوہر تک کو لعان کا راستہ بتایا ہے اور لعان کی روایات نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر لعان کی آیات نہ ہوتیں تو بیوی پر زنا کا الزام لگانے والے شوہر کو چار گواہ ہی پیش کرنے ہوتے اور ناکامی کی صورت میں اسے قذف کی سزا بھگتنی پڑتی (البینۃ او حد فی ظھرک)۔
دوسری بات یہ ہے کہ ”سنگین اور فوری اشتعال“ (grave and sudden provocation) کو قانون سزا میں تخفیف کے لیے سبب مانتا ہے، لیکن اس سے فوجداری ذمہ داری کی نفی نہیں ہوتی، یعنی سنگین اور فوری اشتعال کے باوجود اس شخص کو مجرم ہی مانا جائے گا، البتہ اس کی سزا میں کمی ہوسکتی ہے، الا یہ کہ اشتعال اس شدید نوعیت کا ہو کہ اس کا ذہن ہی ماؤف ہوگیا ہو۔ اس آخری صورت میں اس پر جنون کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ واقعہ پہلے ہوا ہو اور قتل کرنے والا موقع کی تلاش میں ہو اور پھر موقع پاکر قتل کرے تو یہ سنگین اور فوری اشتعال کے زمرے میں نہیں آتا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جو شخص سنگین اور فوری اشتعال کا عذر پیش کرتا ہے بار ثبوت اسی پر ہوگا، یعنی عدالت اس کا عدم وجود ہی فرض کرے گی اور اسے مجرم ہی مانے گی جب تک وہ یہ ثابت نہ کردے کہ اس موقع پر اچانک ایسا کچھ ہوا جس نے سنگین اشتعال پیدا کرکے اسے اس فعل پر ابھارا۔
پانچویں بات یہ ہے کہ خواہ قندیل بلوچ نے پہلے سے بہت کچھ کیا اور کہا ہو اور بھائی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو لیکن پھر بھی یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس موقع پر اچانک ہی ایسا کچھ ہوا جو فوری اور سنگین اشتعال کا باعث بنا ہو۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا، اس کا بارثبوت اس بھائی پر ہی ہوگا۔
چھٹی بات یہ ہے کہ پاکستانی قانون میں 2005ء کے بعد سے اصول یہ ہے کہ اس طرح کے قتل میں ولی، بلکہ تمام اولیا، کی جانب سے معافی کے بعد بھی قاتل کو سزاے موت دی جاسکتی ہے کیوں کہ قانون نے اسے فساد فی الارض قرار دے کر ولی کے معافی کے اختیار پر حاکم کے اختیار کو، جو وہ پوری قوم کے نمایندہ کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے، فوقیت دی ہے، اور جیسا کہ اوپر دی گئی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے، میری راے میں یہ اسلامی قانون کے قواعد سے ہم آہنگ ہے۔
و اللہ تعالیٰ اعلم!
مصنف بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد میں لاء کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
تبصرہ لکھیے