سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے مؤرخہ 30 اگست کو عمران خان کی پٹیشن خارج کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاناما لیکس کے خلاف درخواستیں سپریم کورٹ میں التوا میں پڑی تھیں۔ جب تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو معاملے کی سنگینی کے پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس سے متعلقہ درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر لیں۔ پہلی پیشی پہلی نومبر کو تھی۔ اس پہلی پیشی میں عدالت عالیہ نے یہ حکم دیا کہ
”نواز شریف اپنے اوراپنے بچوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرائیں“
اس حکم کو عمران خان نے اپنے مطالبے”استعفی یا تلاشی“ کے مطابق ”تلاشی“ تصور کرتے ہوئے اپنا احتجاج ختم کرکے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ کشیدگی کے اتنی ہائپ اختیار کرنے کے بعد لوگوں کا خیال یہ تھا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے، اسلام آباد لاک ڈاؤن کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اگلی پیشی ایک دن کے وقفے کے بعد یعنی 3 نومبر کو رکھی۔ آج پیشی کے وقت سپریم کورٹ کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا نواز شریف صاحب نے جواب جمع کرایا؟
سپریم کورٹ اورنواز شریف کے وکلاء کے چند مکالمے حرف بحرف آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، اس سے آپ بہت سی چیزوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس سے اس مقدمے کی سنگینی کے علاوہ، نواز شریف کی پوزیشن، سپریم کورٹ کا موڈ، اور نواز شریف کے پس و پیش کی صورت نتائج کا تو اندازہ ہوتا ہی ہے، ساتھ یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان کی سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کی تلاشی پر مسرت کتنی حقیقی تھی۔
آج جب اسلام آباد سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری تھی تو پاناما کیس میں وزیر اعظم کا سپریم کورٹ میں جو جواب جمع کرایا گیا میڈیا کے مطابق اس کے مندرجات اور ان پر سپریم کورٹ کے کمنٹس یہ ہیں۔
بیرون ملک فلیٹس اور دیگر جائیدادوں کا مالک نہیں، نواز شریف کا جواب
میں آف شور کمپنیوں کا مالک نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
ریگولر ٹیکس قانون کے مطابق ادا کرتا ہوں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
2013ء کے گوشواروں میں تمام اثاثے ڈکلئیر ہیں، وزیر اعظم کا جواب
میرا کوئی بچہ میرے زیر کفالت نہیں، وزیر اعظم نواز شریف کا جواب
وزیر اعظم کو آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نا اہل نہیں قرار دیا جا سکتا، جواب
پاناما کیس، سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے بچوں کے جواب جمع نہ ہو سکنے پر سپریم کورٹ کی برہمی واضح تھی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب کے 3 بچوں کی جانب سے جواب کیوں جمع نہیں کرایا؟ اس پر جب نواز شریف صاحب کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر، حسن اور حسین نواز ملک سے باہر ہیں تو جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا آئندہ سال جواب جمع کرائیں گے؟ آپ ہمارا وقت ظائع کر رہے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جو ملک میں موجود ہیں ان کے جواب جمع ہونے چاہییں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر پتہ ہوتا کہ یہ کرنا ہے تو عدالت ہی نہ لگاتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جو ریمارکس دیے وہ یقینا وزیراعظم ہاؤس تک من و عن پہنچ جائیں گے، انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کر لیں گے۔ ایک موقع پر جب نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے یہ کہا کہ مریم صفدر وزیراعظم نواز شریف کی کفالت میں نہیں تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ بات لکھ کر دیں کہ مریم نواز، وزیر اعظم کی کفالت میں نہیں۔
اس ساری گفتگو کے تناظر میں چند باتیں بہت واضح ہیں کہ نواز شریف اپنے بچوں کے اثاثہ جات کے متعلق جواب جمع نہیں کرانا چاہتے، سب جانتے ہیں کہ مریم نواز، حسن اور حسین نواز کی جائیدادوں کی تفصیل کے آتے ہی بہت سے سوالات کے جواب خود بخود مل جائیں گے اور بہت سے سوالات پیدا ہو جائیں گے جو کہ نواز شریف کی صحت کے لیے بہت مضر ہیں، کیونکہ وہ دل کے مریض بھی ہیں۔
دوسری جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عدالت کے ریمارکس ہیں کہ اگر نواز شریف صاحب کے بچوں کے جواب نہ آئے تو قانونی طور پر عدالت ان الزامات کو درست تسلیم کر لے گی۔ جائیداد کی ملکیت خود یہ ڈھائی ڈھائی من کے بچے تسلیم کر لیں یا ان کے جواب نہ دینے کی صورت میں عدالت یہ فرض کر لے، دونوں صورتوں میں نواز شریف کے یہ تینوں ہونہار سپوت اپنے فرار کے راستے مسدود پائیں گے۔ ملکیت ثابت ہوتے ہی رجسٹریوں سے یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ یہ پراپرٹیاں کب اور کتنے کی لی گئی تھیں۔ اگر یہ پراپرٹیاں نوے کی دہائی میں لی گئی ہیں تو پھر تو مقدمہ سیدھا سیدھا نوازشریف صاحب کے گلے میں فٹ ہو جائے گا کیونکہ اس وقت یہ تینوں بچے پندرہ سولہ سال کے تھے۔ اگر اس کے بعد بھی لی گئی ہیں تو بھی انہیں یہ بات ثابت کرنا پڑے گی کہ اتنی مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ رقم بیرون ملک کیسے بھیجی گئی؟ وہ مریم نواز جو نواز شریف صاحب کی 2011ء کی ٹیکس ریٹرن کے مطابق ان کی کفالت میں تھیں، وہ اتنی مہنگی جائیداد بھلا کیسے خرید سکتی ہیں؟ اور سب سے بڑی بات کہ فلیٹس چاہے جائز پیسوں سے بھی لیے گئے ہوں، کیا نواز شریف صاحب نے پچھلے الیکشنز میں اپنے اہل خانہ کی جائیداد کی تفصیل میں ان کے متعلق لکھا تھا یا نہیں؟ یہ معاملہ کچھ طول اسی وقت پکڑ سکتا ہے جب مریم بھی حسن اور حسین نواز کی طرح بیرون ملک فرار ہو جائے اور واپس آنے کا نام نہ لے۔
ابھی بہت سے پہلو ایسے ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے، مزید تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ گوش گزار کرتا رہوں گا۔ اس وقت تک وہ تمام حضرات جو عمران خان کے یوم تشکر منانے پر سوال اٹھا رہے تھے انہیں چاہیے کہ وہ آیوڈین ملا نمک استعمال کرنا شروع کر دیں۔
تبصرہ لکھیے