ہوم << سینئر صحافی عبدالقادر حسن کی کہانی، ان کی اپنی زبانی - عامر خاکوانی

سینئر صحافی عبدالقادر حسن کی کہانی، ان کی اپنی زبانی - عامر خاکوانی

11019467_1022673787760103_3386052191318066626_nیہ پچاس کی دہائی کے وسط کی بات ہے، خوشاب کی حسین وادی سون سکیسر کے ایک نوجوان مکین نے ملک کے نامور صحافی اور ایڈیٹر کو خط لکھا کہ میں صحافی بننا چاہتا ہوں۔ عام طور پر اخبارات کے دفاتر میں ایسے خطوط طفلانہ حرکت سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیے جاتے ہیں، اب جانے یہ جہاندیدہ صحافی کی تیز نگاہ تھی جس نے مکتوب نگار کے چھپے جوہر کو پہچان لیا یا پھر اس اکیس بائیس سالہ نوجوان نے خط لکھا ہی کچھ ایسے سوزدروں سے تھا کہ ایڈیٹر موصوف نے جواباً خط لکھا اور اس میں صحافت کی وادی پرخار میں موجود صعوبتوں کی جھلک دکھائی اور مشورہ دیا کہ ایسا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے۔ وہ نوجوان جواب دینے کے بجائے اسی دن بس پکڑ کر لاہور چلاآیا اوریوں اگلے دن سے اس کا اخبارنویسی کا سفر شروع ہوگیا جو آج نصف صدی گزرجانے کے باوجود اتنی ہی تب وتاب سے جاری ہے۔ وہ نوجوان آج کے ممتاز کالم نگار اور سینئر صحافی عبدالقادر حسن ہیں اور وہ ایڈیٹر نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم تھے۔
عبدالقادر حسن کے سفر زیست کی روداد دلکشا ہونے کے ساتھ دلچسپ اور سبق آموز بھی ہے۔ وہ کسی سکول میں باقاعدہ داخل نہیں ہوئے اور انہوں نے فقہ، حدیث، عربی، انگریزی اور دین کی تعلیم مختلف نامی گرامی اساتذہ سے علیحدہ علیحدہ حاصل کی۔ وہ برسوں ایک قومی اخبار کے رپورٹر رہے، اردو اخبار میں ماڈرن کالم نویسی کے وہ بانی ہیں۔ ان کا کالم ”غیر سیاسی باتیں“ کوئی پچاس برسوں سے شایع ہورہا ہے۔ وہ امروز کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ اپنے اس طویل صحافتی کیریئر کے دوران کئی حکمران ان کے قلم کی کاٹ سے مضطرب رہے تو جنرل ضیاء جیسے سربراہ مملکت اہم امور میں ان کی رائے سے مستفید بھی ہوتے رہے۔
عبدالقادر حسن کا شمار دائیں بازو کے جید صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کانظریہ بڑا واضح اور غیر مبہم ہے۔ بھارت کے حوالے سے ان کی رائے ہمیشہ سے ایک ہی رہی کہ ہندو کبھی بھی ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔ ان کے مخالف بھی یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ نظریاتی اعتبار سے انہوں نے کبھی کوئی قلابازی نہیں کھائی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے وہ زبردست مداح ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی مشہور زمانہ ٹی وی پرقوم سے ’’معافی‘‘ کے بعد کی ’’حفاظتی نظربندی‘‘ میں عبدالقادر حسن واحد کالم نگار ہیں جنہوں نے اپنے ممدوح کا بھرپور دفاع کیا اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ اپریل کی ایک جھلستی دوپہر کو ان کے سابقہ گھر 255 سی گلبرگ تھری میں ان سے ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ سادہ سا ڈرائینگ روم، پرانی طرز کا ونڈو اے سی، ایک دیوار پر کسی شہہ سوار کی پینٹنگ آویزاں تھی تو شیلف میں میزبان کی جنرل ضیاء کے ساتھ غالباً کسی دورے کے موقع پر کھینچی ہوئی تصویر رکھی تھی۔ گفتگو کا سلسلہ چار پانچ گھنٹوں پر محیط رہا۔ تو آئیے عبدالقادر حسن کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی سنتے ہیں:


عبد القادر حسن: میں ضلع خوشاب کی وادی سون سکسیر کے گائوں کھوڑہ میں 12 مئی 1935ء کو پیدا ہوا۔ یہ پورا گائوں اس لحاظ سے ہمارا ہے کہ 85 فیصد زمین میرے خاندان کی ہیں۔ ہمارا خاندان 3جاگیر دارانہ تو نہیں کہ ہماری زمینیں تمام کی تمام آبائی ہیں، ان میں انگریز حکومت کی بخشی ہوئی کوئی جاگیر نہیں۔ زمین دارانہ یا کاشت کارانہ بیک گرائونڈ البتہ کہہ سکتے ہیں۔ والد کا نام میاں غلام حسن ہے۔ میں چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں۔ ایک بڑے آدمی کا سب سے چھوٹا بیٹا ہونے کے ناتے میری بڑے لاڈ پیار اور خوش حالی سے پرورش ہوئی۔ تعلیم کا تمام سلسلہ البتہ پرائیویٹ نوعیت کا رہا۔ اسے سیلف ایجوکیشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ کلاسیکل طرز تعلیم تھا جس میں مختلف اہل علم حضرات سے علیحدہ علیحدہ مختلف علوم سیکھے جاتے ہیں۔ میں نے رسمی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی۔ اس لیے میں تکنیکی طور پر اسمبلی کا انتخاب بھی نہیں لڑسکتا۔ میں نے راول پنڈی میں دلی کالج کے سابق پرنسپل عبد الجبار غازی سے انگریزی پڑھی، پھر ممتاز عالم دین مولانا مسعود عالم ندوی سے عربی زبان پڑھی۔ اس کے بعد لاہور آگیا۔ میرے بڑے بھائی جماعت اسلامی میں تھے۔ میں بھی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی محفلوں میں شریک ہونے لگا۔ میں نے مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے اسلامی تعلیمات خصوصاً فہم قرآن حاصل کرنے کی کوشش کی (کوشش کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے)۔ اسی دوران مشہور اہل حدیث عالم دین علامہ دائود غزنوی سے حدیث پڑھی اور فقہ کی تعلیم مفتی محمد حسن امرتسری (بانی جامعہ اشرفیہ، لاہور) سے لی۔ ان دنوں مفتی صاحب کا مدرسہ نیلا گنبد میں ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ 1956ء تک چلا۔ ان بڑے اساتذہ سے تعلیم لینے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھ میں نظریاتی زندگی بسر کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ پھر یہ میری زندگی کا حصہ بن گیا۔ میں اپنے آپ کو ایک کمزور اور بے عمل سہی مگر نظریاتی شخص سمجھتا ہوں، جس کا کوئی دین ایمان ہے۔ میں نے تمام زندگی اس نظریاتی شناخت کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس پر سٹینڈ لیا ہے۔
صحافت کا آغاز
دوران تعلیم میں جماعت اسلامی کا سیاسی کارکن بھی رہا جس سے نظریاتی اساس مزید پختہ ہوگئی۔ ان دنوں کافی ہائوسز میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا۔ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم وہاں آتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کی تو جرات نہیں کرسکتے تھے‘ مگر ان سے رسمی تعارف سا ہوگیا۔ پھر میں جوہر آباد چلا گیا۔ کچھ عرصہ وہاں رہا، پھر حمید نظامی صاحب کو خط لکھا اور صحافت میں آنے کی کوشش کا اظہار کیا۔ ان کا جوابی خط آیا کہ یہ اتنا آسان پیشہ نہیں ہے۔ میں جواب دینے کے بجائے لاہور میں ٹمپل روڈ پر واقع ان کے گھر پہنچ گیا۔ downloadانہوں نے مجھے دیکھا تو بولے چلو آگئے ہو تو کل نوائے وقت کے دفتر شیخ حامد محمود سے مل لو۔ اگلے دن حامد صاحب سے ملا انہوں نے روایتی انٹرویو لینے کے بجائے بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا کہ تمہارا مہینے کا خرچ کتنا ہے۔ میں Ymca میں رہتا تھا۔ وہاں کے قیام اورطعام کا خرچہ بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں مکمل تفصیل بتائو۔ میں بولتا گیا، وہ لکھتے گئے۔ حجام اور دھوبی کے خرچ سمیت سب مل ملا کر 100 روپیہ بنا۔ انہوں نے میری تنخواہ 130 روپے مقرر کی اور یوں میں بطور اپرنٹس سب ایڈیٹر کام کرنے لگا۔ سال ڈیڑھ گزر گیا۔ ایک دن مجھے پتا چلا کہ نوائے وقت راولپنڈی میں سب ایڈیٹر کی پوسٹ خالی ہے۔ اپرنٹس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ مستقل ہوجائے۔ میں نے حمید نظامی صاحب کو وہاں جانے کی درخواست دے دی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور کہا، ’’میرے اندازے کے مطابق تم میں لکھنے کی استعداد ہے، پنڈی چلے گئے تو تمام عمر سب ایڈیٹر ہی رہوگے۔ میں تمہاری خیر خواہی میں نہیں بھیجنا چاہتا۔‘‘
اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجھ پر بڑے نظامی صاحب کا بہت بڑا احسان تھا۔ کچھ عرصہ بعد پاکستان ٹائمز کے ادارے سے ہفت روزہ لیل و نہار کا اجرا ہوا۔ میں لاابالی پن میں استعفا دے کر وہاں چلا گیا۔ فیض صاحب چیف ایڈیٹر جبکہ سبط حسن اس کے ایڈیٹر تھے۔ عملہ میں ریاض شاہد اور حسن عابدی وغیرہ تھے، میں بھی سب ایڈیٹر بن گیا۔
بعض لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ دائیں بازو کا ایک پرجوش نظریاتی نوجوان پروگریسو پیپرز کے جریدے میں کیسے چلا گیا جس کی ادارت لیفٹ کے سکہ بند لوگ کر رہے تھے؟ یہ اعتراض درست ہے، میری زندگی نظریاتی تھی، نوائے وقت بھی نظریاتی اخبار تھا۔ لیل و نہار اگرچہ مختلف نظریے کا تھا‘ مگر نظریاتی تو بہر حال وہ بھی تھا۔ میں اسی چیز کا قائل رہا ہوں کہ نظریہ خواہ رائیٹ کا ہو یا لیفٹ کا، مگر زندگی میں ہونا ضرور چاہیے۔ ویسے لیل و نہار میں فیض صاحب اور سبط حسن ضرور تھے، اسی میں لیفٹ کا نظریہ بھی کارفرما تھا، مگر کمیونزم کا پر چار قطعی نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار بڑے ملفوف انداز میں قارئین کی توجہ معاشی تفاوت کی طرف مبذول کرائی جاتی تھی۔ میں یہاں فیچر وغیرہ بھی کرتا رہا۔ اسی دوران ایوب خان نے پروگریسو پیپرز کو قومیا لیا اور اشفاق احمد اس کے نئے ایڈیٹر بن گئے۔ میں نے سرکاری جریدہ بن جانے پر اس سے استعفا دے دیا۔
میں نے حمید نظامی صاحب کو خط لکھا اور نوائے وقت آنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مجھے ہر آدمی نے کہا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نظامی صاحب پروگریسو پیپرز کے کسی بندے کو لے لیں۔ تاہم مجھے نظامی صاحب نے بلاکر صرف ایک سوال پوچھا کہ تم وہاں جا کر کمپونسٹ تو نہیں ہوگئے ہو؟ میرے انکار پر انہوں نے مجھے بطور رپورٹر جاب دے دی اور مجھے کہا کہ کوئی کالم والم بھی لکھ دیا کرو۔
کالم نگاری کا آغاز
نوائے وقت میں بطور رپورٹر مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اپوزیشن کا ایک ہی اخبار تھا، لوگ اسے شوق سے پڑھتے تھے۔ میں جلد چیف رپورٹر بن گیا۔ اسی دوران میں نے سوچا کہ کئی واقعات ایسے ہیں جو 2نیوز میں آتے ہیں نہ ایڈیٹوریل میں ان کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ ایسے واقعات میں نے کالم میں لکھنے شروع کردیے۔ اگر اسے خود ستائی نہ سمجھا جائے تو بتاتا چلوں کہ میں ماڈرن اردو کالم نگاری کا بانی ہوں۔ پرانے لوگوں میں مولانا چراغ حسن حسرت اور سالک صاحب تھے۔ ہمارے دنوں میں مضمون نگاری کا چلن عام تھا۔ ہلکے پھلکے انداز میں پولیٹکل اورینٹیڈ کالم میں نے ہی شروع کیے۔ بعد میں ستر کی دہائی میں لیفٹ والوں میں منو بھائی اور ادھر میں ہی کالم لکھا کرتا تھا۔ اب تو سینکڑوں تک تعداد پہنچ چکی ہے اور بیشتر ایسے ہیں جو کالم کے نام پر جواب مضمون لکھ رہے ہیں۔
خیر میں بات کر رہا تھا کالم میں آنے والے واقعات کی، بھٹو صاحب کے زمانے میں ایسے لطیفے بہت ہوتے تھے۔ شروع میں انہوں نے اپنے وزیروں مشیروں کے لیے ایک یونیفارم لازمی قرار دی تھی۔ اس میں کالر، کف اور پتلون پر پٹی سی بنی ہوئی تھی۔ میں نے کالم لکھا ’’بینڈ ماسٹر‘‘ جس میں اس وردی کو بینڈ ماسٹروں کا لباس قرار دیا۔ خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری تھے، انہوں نے کالم بھٹو صاحب کو دکھایا تو وہ مسکرا دیے اور اگلے روز سے وہ یونیفارم ختم کرادی۔ بعد میں بھی ایسے ہلکے پھلکے واقعات ہوتے رہتے ، ہم اس پر کالم لکھ دیتے ،خوش قسمتی سے قارئین کو بھی یہ سٹائل پسند آگیا۔
”غیر سیاسی باتیں“
عبد القادر حسن:۔ ایوب خان کے دور میں میں نے کالم شروع کیا تھا۔ شروع میں اس کا نام ’’سیاست نامہ‘‘ تھا۔ بعد میں یحیٰی خان نے سیاست پر ہی پابندی لگادی تو میں نے سوچا کہ نام بدلا جائے۔ میری بیوی رفعت نے مشورہ دیا کہ ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ رکھ لو۔ یہ نام سب کو پسند آ گیا اور آج تک چل رہا ہے۔
(جاری ہے)

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment

  • پڑھ کر بہت مزہ ایا، مشورہ یہ ہے کہ پورا انٹرویو ایک ساتھ دیا جائے۔۔۔۔۔۔یعنی پوری تحریر،