پرانے زمانے میں ”اظہار محبت“ کے لیے پیار کرنے والے جب قوت گویائی نہ پاتے تو پھولوں کو گواہ بناتے یا پھر خطوط لکھ کر اپنے لطیف جذبات کا اظہار کرتے۔ ایسے خطوط کو عرف عام میں ”لو لیٹرز“ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ مشرقی تہذیب ان ”لو لیٹرز“ کی اجازت نہیں دیتی مگر نوجوان ایسے جرم کی پاداش میں اکثر و بیشتر پکڑے جانے پر ارباب خانہ کے ہاتھوں دھر لیے جاتے اور خُوب عزت افزائی سے مستفید ہوتے۔
آج انٹرنیٹ کی چکاچوند نے اس تہذیب کے پرخچے اڑادیے ہیں اور سوشل میڈیا کے زیر سایہ اخلاقی قدروں کو پامال کرتی برہنہ تہذیب نے جنم لے لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدرے پاکیزہ اورخوف کے سائے میں پلتی پیار محبت کی پینگیں اب بلا خوف و خطر اور کسی بند کے بغیر علاقائی و قومی سے بین الاقوامی سرحدیں چھُو رہی ہیں۔ پہلے نوجوانوں خطوط پہنچانے کے لیے نت نئے طریقوں کا سہارا لیا کرتے تھے اور کئی کئی دن اپنے خطوط کے جوابات کا انتظار کیا کرتے تھے مگراب فیس بک، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس جیسے برق رفتا ذرائع نے نوجوان نسل کو موقع ملنے پر ایک دم نہ صرف آپے سے باہر کر دیا ہے بلکہ وہ تمام باتیں ان انجان لوگوں سے شئیر کرنے لگے ہیں جو اپنوں سے نہیں کر سکتے تھے۔سائبر سپیس جہاں انسان ایک دوسرے کو دیکھ نہیں رہا ہوتا، وہاں دل کی بات باآسانی سے کہہ جا تا ہے!
ہمارے ہاں اکثریت ایسے دل پھینک عاشقوں کی ہے جو فیس بک پر لڑکی کے چہرے کا فقط ایک انچ حصہ دیکھ کر بھی انٹرنیٹ کے سمندر کو پار کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بےلگام دنیا اپنے تیز دھارے سے مشرقی تہذیب کے اقداری نقوش مسخ کر رہی ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہی پڑھتے آئے ہیں کہ اقدار دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن کا لوگ بھرے مجمع میں اعتراف کرتے ہیں اور دوسری وہ جن پر وہ اپنی زندگی کے فیصلے کیا کرتے ہیں، انٹرنیٹ نام کی بلا نے یہ ثابت کر دیا کہ مشرقی تہذیب صرف پہلی قسم کی اقدار کا نام ہے، یہ وہ اقدار ہیں جن کے منہ پر اعتراف کرنے والے تو بہت ملیں گے مگر ان پر نہ تو زندگی گزاری جاتی ہے اور نہ ہی انسانی معاشرے میں ان اقدار کو زندہ رکھا جاتا ہے. اسی وجہ سے مشرقی اقدار انٹرنیٹ کی دنیا میں آتے ہی غائب ہو جاتی ہیں اور انسان وہ اقدار لے کر آتا ہے جن پر وہ حقیقی معنوں میں جی رہا ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس سائبر اسپیس میں قائم ہونے والی دوستیاں اچانک ان رشتوں سے زیادہ مضبوط ہونے لگتی ہیں جو ہم نے اپنی حقیقی زندگیوں میں قائم کر رکھی ہوتی ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پر آمنے سامنے نہ ہونا ہے، جو بات ہم بالمشافہ نہیں کہہ سکتے وہ ہم اس سائبر اسپیس میں باآسانی کہہ سکتے ہیں۔
پہلے لوگ فقط ایک جملہ کہنے کی غرض سے گلی کے کونوں پر کھڑے ہوکر پورا پورا دن ضائع کر دیا کرتے تھے مگر نوبت نہیں آ پاتی تھی، اور اگر کہہ بھی دیتے تھے تو سُننے والی کو اگر آپ یا آپ کا جملہ ناپسندیدہ گزرتا تو تو پھر اتنی باتیں سننا پڑتی کہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا جبکہ آج وڈیو، آڈیو وائیسز یا ایس ایم ایس کی شکل میں یہ سہولت گھر کی چار دیواری میں باآسانی دستیاب ہے، گھر کے کمرے میں بیٹھ کر کسی بھی لڑکی لڑکے سے ہر طرح کی بات چیت کا کھُلا میدان موجود ہوتاہے یعنی زمانے کے ساتھ اب اس کام میں بدلاؤ آگیا ہے،گلی کے چبوترے پر بیٹھنے اور گلی کے کونے کھانچوں پر کھڑے ہونے والے اب سوٹڈ بوٹڈ ہو کر کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر بیٹھ کر وہی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ دونوں زمانے کے لڑکوں میں ایک چیز مشترک یہ ہے کہ خواتین کے بارے میں دونوں کا نقطہ نظر یکساں ہی ہے، صنف نازک کی قربت کا حصول، اگرچہ قرب حاصل کرنے کے لیے آج کے نوجوانوں کا طریقہ واردات مختلف ہے. یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے کے لفنگے لڑکے پکڑ میں آجاتے تھے اور آج کا مہذب لفنگا سب کچھ کر کے بھی شریف رہتا ہے اور لفنگا بھی نہیں کہلاتا۔۔ بات نئے زمانے کے مرد کی ہو یا پرانے زمانے کے دونوں ہی کسی بھی طرح صنف نازک کی قرابت کے طلبگار ٹھہرے ہیں، مگر یہاں بات یہی ختم نہیں ہو جاتی. پہلے زمانے کا مرد جس کو چاہتا تھا اسی سے شادی رچاتا تھا، جبکہ آج کا نوجوان دوستی کےلیے الگ اور شادی کےلیے الگ خاتون کا متمنی ہے اور اسی سوچ سے ہمارے اقدار کا قتل عام شروع ہوا ہے جس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری اقدار سے محروم ہو جائیں گی۔
تبصرہ لکھیے