مفت مشوروں کی ہر چند کوئی قدر نہیں ہوتی .اس تلخ حقیقت کو بخوبی جاننے کے باوجود" مفت مشورے دینے" سے ہم باز نہیں آسکتے .کیا کریں یہ رویہ ہماری معاشرتی زندگی کا لازمی جزء بن چکا ہے. ہمارا تعلق طب کے شعبےسے بے شک نہ ہو لیکن مریض کو " مفت مشوروں " سے محروم نہیں رکھ سکتے.تعمیرات سے عملا کسی نوعیت کاکبھی واسطہ نہ بھی پڑا ہو کوئی بات نہیں کسی کو مشورہ ہی دینا تو ہے باقی بندہ جانے اس کا کام .علم شریعت کے حصول میں چند گھنٹے صرف کرنے اور مبادیات پڑھنے کی بھی توفیق نہ ملی ہو تو "ڈونٹ وریڈ" آخر " آزادی اظہار رائے " بھی تو کوئی چیز ہے" ڈیٹس وے" ہم دینی امور کے بارے میں کچھ بول کا حق محفوظ رکھتے ہیں .
بناء بریں عملی سیاست سے کنارہ کشی کے باوجود آج میرا دل مچل رہا ہے اور دماغ پھٹ رہا ہے چنانچہ اپنی تسکین کی خاطر سیاستدانوں بلکہ سیاست کے اماموں کو چند "مفت مشورے" پیش کررہا ہوں .امید ہے اس تمھید طولانی کی بدولت سیاسی کارکنوں کی گالیوں سے بچ جاؤں گا.
خان صاحب کی خدمت میں:
1: چہرے کی تبدیلی کی بجائے نظام کی بات کر یار!
ورنہ ہم بھولے نہیں ہیں کہ یہی آپ والے نعرے شریف برادراں لگایا کرتے تھے ." علی بابا اور چالیس چور" شہباز کا نعرہ تھا.
2: احتساب میں مخلص ہیں تو خود اپنا اور اپنے تمام پارٹی رہنماؤں کا رضاکارانہ احتساب عوامی عدالت میں پیش کر غلط لوگوں اپنے سے دور کر!
ورنہ کوئی اور کام کی بات کر یار!
3: اپنی خواتین ورکروں کو (جو ہماری بیٹاں اور بہنیں ہیں) سوشل میڈیا ,خواتین حلقوں ,گھر کے مردوں کی ذھن سازی اور ووٹ تک محدود رکھ!
تاکہ کسی کو ان پر جملہ کسنے اور خودآپ پر تھذیب پر حملہ آور ہونے کا الزام لگانے کا موقعہ ہاتھ نہ آئے.
مولانا صاحب کی خدمت میں:
1:دینی سیاستدان ہونے کے ناطے کم ازکم اپنے کارکنوں کی تعلیمی ,اصلاحی اور نظریاتی تربیت پر زیادہ توجہ دیں تاکہ امتیاز ظاہر ہو!
2: عوام میں اس طاغوتی اور غریب دشمن نظام معیشت کے خلاف ذھن سازی پر توجہ دیں تاکہ اس نظام کے ستائے ہوئےلوگ آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے پر آمادہ ہوں ورنہ اسلامی نظام سے ڈرتے رہیں گے ووٹ کسی اور ملتے رہیں گے اتحاد پر گزارا کرنا پڑےگا
3: عمران کی مخالفت میں احتساب سے انکار کے بجائے احتساب کا بہتر طریقہ پیش کیجئے اور ایجنٹ والی بات کی بجائے ایسی بات کیجئے جس کی ازخود تصدیق عوام کے لیے ممکن ہو ورنہ آپکی بات مخالفت برائے مخالفت طور پرلی جائے گی آپ اپنی ساکھ کو نقصان ہوگا اور ہو رہا ہے.
شریف برادراں کی خدمت میں:
1: سی پیک منصوبے کے حوالے سے ابہام اور خدشات دور کردیں.جس کی آسان صورت یہ ہے اسلام آباد میں ملک بھر سے وکلاء ,صحافیوں ,سیاسی زعماء اور سماجی اور عوامی شخصیات جمع کرکے ان سوالات اور شبہات کے مثبت اور تسلی بخش جوابات دیئےجائیں ورنہ اس ابہام سے فائدہ اٹھاکر سیاسی محاذ آرائی ہو سکتی ہے.
2: پھر عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے کہ پہلے ترجیحی بنیادوں مغربی روٹ اور چھوٹے صوبوں میں اقصادی زون وغیرہ لوازمات پر ابھی سے سب کام شروع ہوجائے تاکہ کسی انتشار اور خلفشار پھیلانے کا موقعہ نہ ملے.
3: مذھبی طبقے کی ہمدردیاں برقرار رکھنے کے لیے مدارس کے بورڈز کو تسلیم کرنے کا درینہ مطالبہ پورا کیا جائے.مزید یہ مدارس کے طلباء کو عصروں اداروں سے ایم فل کےلیے سکالر شپ دی جائے.
Sent from Messenger
تبصرہ لکھیے