پانامہ لیکس سے معاملے کا آغاز ہوا جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی بہت سی نامور شخصیات اس کی زد میں آگئیں۔
کچھ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے اعلی عہدیداران مستعفی بھی ہو ئے لیکن پاکستان میں کسی نے بھی اخلاقی جُرات کا مظاہرہ نہ کیا جس کے نتیجے میں اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت وقت کے قائد اور اُن کے خاندان کے خلاف تحقیقات کا علم بلند کرنا شروع کردیا. بڑے شریف صاحب نے قوم سے خطاب میں اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی حامی تو بھرلی لیکن بعد میں ٹال مٹول سے یہ معاملہ طول پکڑتا گیا۔ کبھی ٹی آر اوز کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی، کبھی اپوزیشن اور حکومت میں ڈیڈلاک آگیا تو کبھی اعلیٰ عدلیہ سے کمیشن قائم کرنے کے لیے لکھے گئے خط میں ابہام پائے گئے، دونوں اطراف سے جو بات لیت و لعل کا باعث بنی، وہ تھی کہ ”ہمارا احتساب نہ ہو دوسروں کو بَلی چڑھایا جائے“ کیونکہ پانامہ لیکس میں دونوں اطراف سے یعنی حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کے لوگ شامل تھے۔
حکومت وقت یوم آزادی سے اب تک کے تمام اکابرین سیاست کا احتساب کرنا چاہتی تھی اور اپوزیشن جماعتیں فقط وزیراعظم اور اُن کے خاندان کا تو یوں معاملہ اگر دہی کا تھا تو سب اس کو مدھانی میں ڈال کر خوب لَسی بناتے رہے لیکن طرفین اس معاملے کا قانونی حل تلاش کرنے سے قاصر رہے کیونکہ موجودہ ماحولِ سیاست میں سب جماعتوں کا اصل مقصد عوام کو بےوقوف بنانا اور کسی معاملے کو بھی ”ٹرک کی بتی“ بنا کر قوم کو اُس کے پیچھے لگانا ہوتا ہے۔
اگر کسی بھی معاملے کا آسان حل تلاش کرنا ہو، اور نیت صاف ہو تو یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن ہمارے ہاں مقصود فقط سیاسی فوائد کا حصول ہوتا ہے۔ جب کبھی بھی آزادانہ انتخابات کی بات کی جائے یا کسی بھی معاملے کی شفاف تحقیقات کی تو ہمارے سیاسی قائدین اور اَکابرِین ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں، جن سے جمہوریت کو خطرات لاحق ہونے لگتے ہیں اور پھر کوئی اور معاملہ از سرِ نو ”ٹرک کی بتی“ بنا کر پوری قوم کو اُس کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
اگر ہم اس دھرنے کی کال کو ہی دیکھ لیں تو عوام کو ایک پارٹی نے بےوقوف بنا کر اس کام کے لیے آمادہ کیا اور سادہ لوح لوگ تیار بھی ہو گئے اور یہ بات واقعی درست ہے کہ احتجاج ہر شخص اور فرد کا بنیادی، جمہوری اور قانونی حق ہے اور کسی کے بنیادی حق کو روکنا قانوناً جُرم ہے، لیکن کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے استعمال سے کسی دوسرے شخص یا فرد کے حقوق تَلف کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اگر ایسا معاملہ ہو تو ”Conflicts of Rights“ کی صورتحال پیدا ہوگی، جس کی وجہ سے معاشرے میں اَنارکی پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے، ایسی صورتحال سے نمٹنے کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے کہ حکومت کچھ لوگوں کی خاطر پورے ملک کے عوام کے بنیادی حقوق مفلوج کردیتی ہے اور انجام کیا نکلتا ہے، افراتفری اور انتشار، جیسا کہ پچھلے چند دنوں سے پورے ملک میں ہوتا رہا ہے۔
آج سپریم کورٹ کے فیصلے کا اتنا احترام ہو رہا ہے کہ دھرنے کی کال یوم تَشکر کی تقریبات میں بدل گئی ہے اور حکومت وقت نے بھی تحقیقات کو من و عن تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے تو میرے بھی چند سوالات بنتے ہیں.
پہلا سوال یہ ہے!
کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ماننا آپ کے لیے جائز نہیں تھا، صاحب اقتدار اور صاحب اغیار؟ میں عدالتی فیصلے کے قانونی پہلوؤں کی طرف ہرگز نہیں جاؤں گا کیونکہ انصافیوں نے دھرنے کی کال واپس لی تھی نہ حکومت وقت نے شاہراہیں کھلی رکھنے کے احکامات مانے تھے بلکہ دونوں اطراف نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صوبائی تعصب کو پروان چڑھایا اور عدالتی فیصلے کی دھجیاں اُڑائیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
دوسرا سوال!
اگر آپ نے عدالتی احکامات کو من و عن تسلیم کرنا ہی تھا تو یہ سب ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت تھی، پہلے ہی صبر کر لیتے کیونکہ آپ سپریم کورٹ میں کیس تو فائل کر چکے تھے اور تاریخ بھی مقرر ہوچکی تھی ۔
تیسرا سوال!
اگر عدالت یا عدالتی کمیشن اپنا فیصلہ سناتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ دونوں حریف فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے، جبکہ اصغر خان کیس پر عملدرآمد آج تک نہیں ہوا اور بھی بہت سے عدالتی فیصلوں پر آپ ہی لوگوں نے اُنگلیاں اُٹھائی ہیں۔
وغیرہ وغیرہ۔
میں دراصل اس سارے معاملے سے ایک ہی بات سمجھ سکا ہوں کہ ”یہ ہے پاکستانی سیاست“ اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ دراصل پاکستانی سیاست ہے کیا؟
یہ وہ سیاست ہے، جس میں NRO بھی کبھی جائز ہوجاتے ہیں اور کبھی کوئی بھی معاہدہ یا بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ عوام کو ہمیشہ کسی نہ کسی ”ٹرک کی بتی“ کے پیچھے لگا کر اپنی سیاست چمکانا اور اپنے مذموم مقاصد کا حصول ہی سیاستدانوں کی سیاست ہے، ہماری بدقسمتی ہے، کہ ہماری قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے اور ہمیشہ ہم بہت جلد اِن کی پرانی کارروائیوں کو بھول کر پھر پاکستانی سیاستدانوں کی ہمدردی میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ہمیشہ عوام کا مقدر رسوائی ہی ہوتا ہے۔
تبصرہ لکھیے