ہوم << کتے، مرد اور پردہ نشین - آصف محمود

کتے، مرد اور پردہ نشین - آصف محمود

آصف محمود قلم کے کتے؟
سیرل المیڈا نے انتہائی نامعقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے احتجاجی کارکنان کے لیے ”کتے“ کا لفظ استعمال کیا ہے. اپنے کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر راحیل شریف کو یقین نہ ہوا کہ نواز شریف کو ان کی محدود دائرے میں واپس جانے اور وہیں رہنے پر قائل کیا جا سکتا ہے تو نواز شریف پر احتجاجی کتے چھوڑ دیے جائیں گے. سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت کے کارکنان کو احتجاجی کتا کہنا ایک معقول طرز عمل ہے. سیاسی کارکنان سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، آپ ان پر تنقید بھی کر سکتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ اہل سیاست ہی ہیں جو سخت اور نازیبا تنقید بھی برداشت کر جاتے ہیں لیکن ان کو احتجاجی کتا کہنا بیمار نفسیات کا مظہر ہے. یہ زبان و بیان گلی کے کسی آوارہ لونڈے کا نہیں ڈان اخبار کے معزز کالم نگار کا ہے جن کے بارے میں ہمیں بڑی وارفتگی سے بتایا جاتا رہا کہ صاحب کوئی معمولی صحافی نہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں. اب جب ایک بات آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ لکھ رہے ہیں تو وہ کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ زیادہ امکان یہی ہے کہ ٹاٹ سکولوں سے پڑھے میرے جیسے لوگ اس اصطلاح میں پنہاں نزاکتوں کو نہیں سمجھ پائے ہوں گے. ہم دیہاتی لوگ اگر آکسفورڈ سے پڑھے ہوتے تو ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ اصطلاح استعمال کرنا گالی نہیں ہوتی. اب تحریک انصاف کا کوئی کارکن جوابا کہہ دے کہ احتجاجی کتے تو معلوم نہیں کوئی چھوڑے گا یا نہیں لیکن قلم کے کتے چھوڑے جا چکے ہیں تو کہیں آزادی صحافت خطرے میں تو نہیں پڑ جائے گی.
............................................
کسی مرد کو بلاؤ
کیا بنی گالہ میں بیٹھی پردہ نشین بیبیوں میں اتنی جرات بھی نہیں ہے کہ حکومتی درندگی کے شکار اپنے دو کارکنان کے جنازوں کو کندھا دینے چلے جائیں؟ ان کی آنیاں جانیاں صرف پریس کا نفرنسو ں تک محدود ہیں. بنی گالہ میں بیٹھی قیادت کو آج سڑکوں پر کارکنان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا. شاہ محمود قریشی کو ملتان سے کارکن لانے چاہیے تھے. علیم خان کو لاہور ہونا چاہیے تھا. جہانگیر ترین کو لودھراں سے جلوس لے کر چلنا چاہیے تھا. اسد عمر کو اپنے حلقے میں کہیں ہونا چاہیے تھا جیسے شیخ رشید اپنے حلقے میں موجود ہیں. لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ قائدین انقلاب زرق برق ملبوسات پہنے بنی گالہ میں آ کے بیٹھ گئے. تھوڑی دیر بعد کولہے مٹکاتے ایک قائد انقلاب آتا ہے اور پریس کانفرنس جھاڑ کر چلا جاتا ہے. حال یہ ہے کہ پورے ملک سے صرف ایک پرویز خٹک ہے جو قافلہ لے کر چلا ہوا ہے. باقی سب مجنوں بنی گالہ میں موج فرما رہے ہیں. مغلوں کے زوال کے زمانے میں محل میں سانپ آگیا. ساری کنیزیں چلانے لگیں ”کسی مرد کو بلاؤ“. ایک شہزادہ بھی وہیں تھا وہ بھی چلا رہا تھا: کسی مرد کو بلاؤ. بنی گالہ کے در و دیوار کو زباں ملے تو چیخ چیخ کر کہیں: کسی مرد کو بلاؤ.

Comments

Click here to post a comment