ہوم << یکم نومبر، لافانی جذبوں کے دن کا پیغام - شکیل اختر رانا

یکم نومبر، لافانی جذبوں کے دن کا پیغام - شکیل اختر رانا

شکیل رانا کچھ دیر حال سے نکل کر ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کی کوشش کریں، ماضی کی بھولی بسری یادوں میں ان لمحات کو تلاش کریں جب برصغیر پاک و ہند کے ہر حصے میں آذادی کا جذبہ سر چڑھ کر بول رہا تھا، ایک جانب ہندوستان کے چپے چپے میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کی صدائیں گونج رہی تھیں تو دوسری جانب ہندوستان کے انتہائے شمال میں ہمالیہ کے مغربی پہلو میں ڈوگرہ راج سے فيصلہ كن لڑائی كے ليے ميدان سجانے كي تيارياں عروج پر تھيں، ایک جانب ہندوؤں اور انگریزوں کے مظالم سے دل برداشتہ مسلمان آزادی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے تو دوسری طرف گلگت کے بہادر سپوت ڈوگروں کے خلاف صف بندي ميں مشغول تھے، پھر چشم فلك نے بہادری كے وہ نظارے ديكھے کہ تاريخ ميں ان کی مثاليں بہت كم ملتی ہيں. مجاہدین آزادی کے انہی بے کراں جذبات كے نتيجے ميں برصغیر پاك و ہند ميں اگست 1947ء میں حریت کا سورج طلوع ہوا۔ 14 اگست 1947ء کو دنیا میں پاکستان کے نام سے ایک ملک وجود میں آیا۔ جس وقت پاکستان وجود میں آیا اس وقت گلگت کے حریت کیش عوام اپنے دیس کو ڈوگرہ راج کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے مصروف پیکارتھے، پاكستان كے حصول سے تحريك آزادي گلگت كو تقویت ملی، يہاں كے مجاہدين كو ايك نيا ولولہ اور حوصلہ ملا. ڈوگرہ راج كے مظالم سے تنگ حريت پسند عوام جب بلا امتياز رنگ و نسل اور بلاتفريق مسلك و مذہب ڈوگرہ شاہی كے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ڈوگروں كو بہتری اسی ميں نظر آئی كہ وہ يہاں سے بھاگنے پرمجبور ہوگئے. ان قربانیوں کی بدولت یکم نومبر 1947ء کا تاریخی دن بھی آیا جب ڈوگرہ راج کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی اور گلگت کی سرزمین نے ہمیشہ کے لیے غلامی کا طوق اتار پھینکا، ماضى کی ان حسين يادوں كے تناظر ميں کبھی آپ نے اس نکتے پر غور فرمانے کی کوشش کی ہے کہ میرے اور آپ کے آباء و اجداد نے بے سروسامانی کے عالم میں اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو کیسے ناکوں چنے چبوائے؟ وہ کیا جذبہ تھا جس کے اثر سے ان میں عقابی روح بیدار ہوئی تھی؟ ميرے خيال ميں اس سوال کا جواب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ میری اور آپ کی طرح اپنے اپنے چند انچ کے حجروں میں محبوس نہیں تھے، وہ بلا رنگ و نسل اور بلا تفریق مسلک و مذہب ایک آواز اور ایک قوت بن کر مشترکہ قومی و دینی دشمن کے خلاف میدانِ عمل میں آئے تھے، اسی اتحاد و اتفاق کا نتیجہ تھا کہ دشمن باوجود اپنی طاقت كے شكست كھانے پر مجبور ہوا۔
اب آپ ماضی کی یادوں سے نكل كر دوبارہ حال میں آئيں اور اپنی حالت پر غور کریں اور اپنے اعمال کا موازنہ اپنے آباء و اجداد کے اعمال و کردار سے کریں اور فیصلہ کریں کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزارِ میں اترنے والوں کے خون کی ہم لاج رکھ رہے ہیں یا پھر ان کے ساتھ غداری کررہے ہیں،اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس وقت قربانی دینے والوں میں یہاں مقیم تمام مکاتب فکر کے لوگ پیش پیش تھے اور آج انہی کے نام لیوا باہم دست و گریباں ہیں، ہمارے آباء و اجداد نے اپنے بے مثال اتحاد و اتفاق کی طاقت سے ڈوگرہ شاہی کو اپنی سرزمین سے بے دخل کردیا تھا تو اس میں ہمارے لئے یہ سبق موجود ہے کہ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی انداز میں متحد اور متفق ہوکر اپنے مشترکہ قومی و دینی دشمن کا مقابلہ کریں، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم بجائے دشمن کے خلاف اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں۔ کیا شیعہ کیا سنی سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں.ہمارے حال اور ہمارے آباء واجداد كے حال ميں كيا فرق تھا اس كا اندازه آپ اس بات سے لگائيں كہ کوئی دو سال ادھر کی بات ہے، ميریٹ ہوٹل کراچی میں چترال کی ایک تنظیم نے ایک پروگرام منعقد کیا، چترال کے ایک صحافی دوست کے ساتھ مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا، اس پروگرام میں چترال کے سنیوں اور اسماعیلوں کی باہمی محبت دیکھ کر دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی کہ ایسے پروگرام گلگتیوں کے بھی ہونے چاہئیں۔ چناچہ اسی سال اکتوبر کے اواخر میں اسی جذبے سے کمپین چلائی تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ بہتری اسی میں ہے کہ آپ خاموشی اختیار کریں،ایسا نہ ہو کہ....... اس وقت وہاں کے جو حالات تھے ان کی روشنی میں ہم نے بھی خاموشی میں عافیت سمجھی، كيوں کہ اس حقيقت سے انكار بہرحال ممكن نہيں كہ ہم جس طرح يہاں ایک دوسرے كے دشمن بنے ہوئے ہيں بالكل اسی طرح دوسرے شہروں ميں بھی ايك دوسرے كی بو سونگھتے پھرتے ہيں۔
یکم نومبر تجدیدِ عہد وفا کا دن ہے، آج ہم روتے ہیں کہ ہمیں حقوق نہیں مل رہے ہیں، ہمارے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں، یاد رکھیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہم خود ہی ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں، جب تک ہم آپسی دشمنی سے باہر نہیں آئیں گے، ہمارے ليے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، يہ ميری اور آپ سب كی ذمه داری ہے كہ اپني صفوں ميں موجود كالی بھيڑوں پر نظر ركھيں اور جو بھي شخص كسی بيرونی دشمن كا آلہ كار بن كر ہمارے درميان نفرتوں كے بيچ بو رہا ہے اسے بے نقاب كيا جائے اور ہر مسلك كے علماء اور سنجيدہ لوگوں كو چاہيے كہ وہ اپنے پيروكاروں كو اس بات كا درس ديں كہ اپنے مسلک پر عمل كرتے ہوئے دوسرے مسلك كا احترام كريں تاكہ نفرت اور عداوت كا خاتمہ ہوسكے اور ہم ایک بار پھر ایک آواز اور ايك قوت بن كر اپنے حقوق كے ليے کامیاب جد و جہد کر سكيں۔ كاميابی كا واحد راستہ يہی ہے كہ ایک دوسرے كے عقائد اور جذبات كا احترام كيا جائے، اگر ہم اب بھی اپني اس روش پر قائم رہے تو پھر ياد ركھيں کہ اكيسويں صدی كا مورخ جب تاريخ قلمبند كرے گا تو وہ یہ ضرور لكھے گا كہ گلگت بلتستان ایک ايسا خطہ ہے کہ انتہر سال پہلے جن لوگوں نے جانوں كے نذرانے پيش كركے اس خطے كو آزاد كروايا تھا انہتر سال بات ان ان کی اولاد ان كے خون كے ساتھ غداری كرتے ہوئے بيرونی دشمن كے اشاروں پر ايک دوسرے كے خلاف بر سرپيكار تھی، غور كریں جب ميرے اور آپ كے بچے ہماری یہ تاريخ پڑھيں گے تو ہمیں کن الفاظ میں یاد کریں گے؟ کیا میری قوم کے رہنما اس دردِ دلِ درد مند کی طرف کچھ توجہ دینے کی زحمت گوارا کریں گے؟

Comments

Click here to post a comment