یہ جملہ جو اس تحریر کا عنوان ہے حقیقت میں ہمارے معاشرے کی دکھتی رگ ہے. آپ اس جملے کو بنیاد بنا کر آج کل پھیلتی بےراہ روی کا تجزیہ کرلیں، آپ اس فحاشی کی جڑ تک پہنچ جائیں گے. ایک عجیب ہی دنیا آپ کے سامنے آئے گی، میں آپ کے سامنے اس حوالے سے دور صحابہ کی چند خصوصیات رکھتا ہوں, آپ انہیں پڑھ کر ذرا غور کریں کہ اگر ان امور پر کوئی شخص ہمارے معاشرے میں عمل کرنا شروع کریں تو لوگ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں
- بیٹی کے والد خود اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کر دیتے تھے اور اس میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
- عورت طلاق یافتہ بھی ہوجاتی تو اگلا نکاح اس کے لیے آسان تھا.
- عورت بیوہ بھی ہوجاتی بلکہ ایک سے زائد مرتبہ بھی بیوہ ہوجاتی تو عدت سے فراغت پر نکاح کے پیغامات مل جاتے بلکہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ ایک وقت میں تین پیغامات جمع ہو گئے اور کسے اختیار کیا جائے اس کے لیے مشورہ کرنا پڑا.
- ان کے بوڑھے بھی اگر نیا نکاح کر لیتے تو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
- بڑی عمر کے مرد چھوٹی عمر کی عورت اسی طرح بڑی عمر کی عورت چھوٹی عمر کا مرد آپس میں نکاح کرلیتے تو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا.
- پیغام نکاح رد ہوجاتے تو گھروں میں لڑائیاں پیدا نہیں ہوتی تھیں
- ایک کے بعد دوسری بیٹی ایک ہی شخص کے نکاح میں تو خود نبی علیہ السلام نے دی ہے.
- قبیلے اور خاندان کا معزز شخص ایک گھر کے لڑکے کی بات دوسرے گھر میں چلا دیتا تھا اور اس کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا.
- نکاح کو غنی بننے کا سبب اور ذریعہ سمجھا جاتا تھا.
یہ چند باتیں تمثیلا ذکر کردیں وگرنہ باتیں تو اور بھی بہت ہیں. اب ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے معاشرے کا جائزہ لیں. باپ اگر اپنی بیٹی کا رشتہ خود پیش کردے تو کیا کیا القابات اس کے والد کو مل جائیں؟ کیا کیا مفروضے قائم ہو جائیں؟ یہ آپ سب جانتے ہیں نتیجہ یہ کہ بھول کر بھی والد کی زبان نہیں ہلتی، چاہے بیٹی کی عمر ڈھل جائے اور وہ یہ خوشی سے نہیں معاشرے کے ڈر سے نہیں کرتا.
طلاق یافتہ اور بیوہ کے نکاح کی بات تو رہنے ہی دیں، اب تو لڑکی کی منگنی بھی ٹوٹ جائے تو ماں باپ کی نیندیں اڑ جاتی ہیں کہ خدا جانے اب کیا ہوگا، کیا کیا قصور میری بیٹی کا نکالا جائےگا، کیا کیا الزام اس پر ڈالے جائیں گے چاہے وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہو. عمر کے تفاوت کی اہمیت تو اس قدر بڑھ گئی کہ بعض خاندانوں میں بڑی عمر کی لڑکی سے شادی گویا حرام سمجھی جاتی ہے.
میری عرض یہ ہے کہ رسومات کی کھچڑی تو ایک طرف رہنے دیں، یہ اسباب بھی معاشرے کو بےراہ روی کی طرف دھکیلنے کے لیے کم نہیں ہے. کیونکہ بات سیدھی سی ہے یہ موازنہ صحابہ کے زمانے اور ہمارے زمانے کا ہے، ہم جتنے بھی جدید تہذیب یافتہ ہوجائیں معاشرہ تو ان کا ہی بہتر تھا. خیر تو اب بھی اسی جیسے ماحول بنانے میں ہے. جس معاشرے کا آخری نکتہ یہ تھا کہ نکاح آسان کردیے جائیں تو بدکاری خود ہی منہ چھپا لے گی.
تبصرہ لکھیے