ہوم << توہم پرستی اور منفی ترقی - سید ثمر احمد

توہم پرستی اور منفی ترقی - سید ثمر احمد

ہر ملت کا ایک نظام ِعقائد ہوتا ہے اور اس کے مطابق ہی اس کے اعمال ترتیب پاتے ہیں۔ علم سے محرومی کے دور میں یہ نظامِ عقائد اوہام و خرافات (Myths) پر مشتمل تھا۔ آج تک علم سے محروم لوگوں میں ان فضولیات کی جڑیں قائم ہیں۔ یہ بظاہر بے حقیقت چیزیں کامیابی کے راستے میں کانٹے چن دیتی ہیں۔ کتنی ہی کامرانیوں سے تہی دامن کر دیتی ہیں۔ انسان کھوکھلے تصورات پر کامیاب زندگی کی کھوکھلی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن دیمک زدہ دیواریں کہاں تک پائدار اور قابل ِ اعتبار ہوسکتی ہیں؟ یہ معمولی نظر آنے والے خیالات زندگی کو کیسی سنگینیت سے دوچار کردیتے ہیں اور ان سے نجات کیا شگفتگی پیدا کردیتی ہے یہ مضمون اسی حجاب کو اٹھائے گا۔
قدیم جہالت:
جب بھی چاند کو گرہن لگتا تو قدیم چین کے لوگ اکھٹے ہوکر پوری طاقت سے شور کرتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ چاند کو ایک بہت بڑا اژدھا کھا رہا ہے۔ ہمارا یہ شور چاند کو بچانے کی کامیاب کوشش ہے۔ معینہ وقت پہ گرہن ختم ہوجاتا۔ تو یہ لوگ اپنی کامیابی کا جشن مناتے اور اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ شور مچاتے۔ سورج اورچاند گرہن کے متعلق عام خیال تھا کہ یہ کسی بڑی شخصیت کی وفات پر منعقد ہوتے ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں دنیا کے نقشے پر اسلام کی عقلی اور انقلابی دعوت ابھری۔ تاریخی ریکارڈ میں جناب ِ محمد ﷺ وہ پہلی شخصیت ہیں جو اس طرح کے توہمات پرمستقل چوٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم انتقال کر گئے۔ اسی دن سورج گرہن ہوا۔ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ یہ سب ابراہیم کے غم میں واقع ہوا ہے۔ بات مشہور ہوئی۔ بات کی جڑ تک پہنچنے والے راہ نما نے لوگوں کو اکٹھا کر کے خطبہ دیا۔
’’ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان کوگرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پس جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو پکارو اس کی تکبیر کرو ، سلام بھیجو اور صدقہ کرو‘‘۔ اگر اس وقت بھی خبردار نہ کیا جاتا تو نہ جانے کتنے ہی لوگ سورج گرہن والے دن کام کرنا ہی ترک کردیتے اور زندگی کا دھارا ناقابل ِتلافی نقصان اٹھاتا۔ لیکن جو زندگی میں بہار بھرنے آیا تھا وہ جانتا تھا کہ اسے خزاں سے کیسے بچانا ہے ۔
پانڈورا بکس:
قدیم نادانوں نے دیکھا کہ طاقت کے سب کام مرد کرتا ہے، کماتا ہے، جنگیں لڑتا ہے ۔ جب کہ عورت جسمانی طور پہ کمزور اور نازک ہے ۔ لہذا مرد فائق و برتر اور عورت ذلیل و کم تر ہے۔ وہ یہ جان ہی نہ سکے کہ متوازن ، معتدل اور کامیاب زندگی اندرونی و بیرونی دو میدانوں کے مضبوط ہونے کے باعث وجود میں آتی ہے۔ انسان جسے بلند اور پست سمجھتا ہے اس کی بلندی اور پستی کے قصے اپنے تصور کو سہارا دینے کے لیے گھڑ ہی لیتا ہے۔ یونانی اوہام (Mythology) میں اسی کا شاخسانہ یہ ٹھہرا کہ پرومی تھیس دیوتا نے آسمان سے آگ چرائی اور زمین والوں کو دے دی۔ دیوتاؤں کے دیوتا زیوس (Zeus) کویہ بات ناگوار گزری۔ اس نے انتقام لینے کے لیے ایک عورت بنائی اور اسے زمین پہ اتار دیا۔ اس کا نام پانڈورا تھا۔ اس کے پاس ایک بکس تھا جسے پانڈورا بکس کہتے ہیں۔ زمین پر اس وقت ایمپی تھیس بستا تھا۔ اس نے پانڈورا کے ظاہری حسن سے متاثر ہوکر اسے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ ایک دن پانڈورا نے اپنا وہ بکس کھول دیا۔ اس میں ہر طرح کی برائیاں بند تھیں۔ یہ ساری زمین میں نہ ختم ہونے کے لیے پھیل گئیں۔یہ قصہ بیان کر کے عورت کی تذلیل کی جاتی۔
کئی جگہوں پر کسی بھی عورت کی طرف دیکھنا پرہیز گاری کے منافی تھا۔ کئی لوگ اس کو نجس خیال کرتے۔ کئی اپنی عبادات کے دن سے پہلے عورت کے قریب جانے کو گناہ سمجھتے۔ کہیں اسے مشترکہ میراث (Public Property) قرار دیا گیا اور رشتوں کا امتیاز تک ختم کر ڈالا گیا۔بعض پیدا ہوتے ہی قتل کر ڈالتے، میراث کا سوال کہاں؟ اب جو اپنی نصف آبادی کو اپنا ہمراہی خیال نہ کریں بلکہ پاؤں کی جوتی اور ناقص شخصیت سمجھیں۔ یا دوسری انتہا پر جہاں اسے محض تشہیر کی علامت اور شمع ِمحفل سمجھا جائے اور کوئی مثبت اور بڑا کام کرنے کے لیے غیر موزوں قرار دیا جائے ، بھلا بتاؤ کیا ایسی دنیا کبھی پنپ سکتی ہے، ترقی کر سکتی ہے؟ یہ تو الٹا ترقی کو زوال کے رستے ڈال دے گی۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں جو پہلی مسلسل اور توانا آواز اس بے بس اور کمزور کے لیے اٹھی وہ بھی جناب ِ محمدﷺ ہی کی تھی۔ آپ نے عزت و احترام میں اسے اتنا اٹھایا کہ بعد کے لوگوں کو اس کی خاطر ساری رات پانی لیے کھڑا رہنے کے باعث ولایت عطا کی گئی۔ آپ نے فرمایا مجھے تمہاری دنیا میں دو چیزیں پسند ہیں۔ ایک خوشبو دوسری عورت۔ لوگ تجرد کی زندگی کو اعلی روحانی زندگی سمجھتے۔ آپ نے بتا یا کہ تقدس الگ تھلگ نہیں بلکہ گھر بار کے ساتھ رہ کر خدا کی حدود کے اندر رہنے میں ہے۔ محسن ِ انسانیت نے مردوں اور عورتوں کے درمیان اس منفی مصنوعی فرق کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے حقیقی ترقی کی تعلیمات عطا کیں۔ ان کے پیروکار اب اِس سڑی لاش کی پوجا نہ کریں۔
نیل کا طلسم:
مصر فتح ہوا۔ عمرو بن العاصؓ کے سامنے مسئلہ پیش ہوا ۔ کہ بودنہ کے مہینے میں گیارہویں رات کو جب تک ایک کنواری کو سجا سنوار کے نیل کی نذر نہ کر دیا جائے۔ دریا اس وقت تک بہتا نہیں۔ گورنر ِ مصر نے کہا:- اسلام کے آنے کے بعد ایسی کوئی ظالمانہ حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ لوگ اپنے راسخ تخیل کے مطابق ڈر گئے اور مصر سے ہجرت شروع کی کہ اب کچھ بلائیں نازل ہونا شروع ہوں گی۔ دریا میں پانی نہ آیا۔ تو خط عمر بن خطابؓ تک پہنچا۔ جواب آیا، تم نے بالکل ٹھیک کیا۔ اب میرا یہ خط نیل میں ڈال دو۔ خط میں تحریر تھا:
’’اے نیل اگر تو خود بہتا ہے تو نہ بہہ۔ اور اگر تجھے چلانے والا اللہ واحد و قہار ہے تو ہم تجھے اسی خالق کا واسطہ دیتے ہیں تو چل پڑ‘‘۔ تاریخ کی عجیب حقیقت ہے کہ دریا اس کے بعد سے آج تک نہ رکا۔ مسلمانوں کی روشن خیالی اس ظلم کا خاتمہ نہ کرتی تو نہ جانے اب تک نیل پر اور دنیا بھر میں ظلم کی مزید کتنی ہی قسمیں غلط عقائد کی بنیاد پر موجود ہوتیں۔ مظلوم چیختے اور کوئی نہ سنتا تھا کہ یہ ان کے عقیدے کا معاملہ ہوتا۔
درخت کی عقیدت:
مکے کی طرف سفر تھا۔ عمرؓ امیر المومنین تھے۔ دیکھا ، ایک درخت کے ساتھ کچھ لوگ عجیب حرکتیں کررہے ہیں۔ یہ وہ درخت تھا جس کے نیچے نبی محترم ﷺ نے بیٹھ کے بیعتِ رضوان لی تھی۔ دوررَس نگاہیں پہچان گئیں کہ معاملہ یہاں نہ رکا تو کہاں تک جائے گا۔ اسی وقت درخت اکھاڑ دینے کا حکم دیا تاکہ جدید دور کے رہنما کے پیروکار فرسودگی میں مبتلا نہ ہوجائیں اور دنیا کی گندگیوں کا شکار نہ ہوجائیں۔
خرابی کا سِرا:
امیرالمومنین جناب عثمان بن عفان ؓ کی نظر پڑی ۔ ایک شخص چپکے چپکے قبر سے مٹی اکھٹی کر رہا ہے۔استفسار کیا تو وہ شخص گھبرا گیا۔ زور دینے پر بتایا۔ میں بڑی دور سے آیا ہوں ۔ سوچا حضور کی قبر ِ مبارک کی مٹی لے چلوں۔ برکت رہے گی۔ وقت کا ذہین ترین آدمی سمجھ گیا ۔ بات نہ رکی تو کہاں تک جائے گی۔ اسی وقت سے سرکاری حکم نامے کے تحت حضور اعلی کے حجرے کے گرد دیوار چن دی گئی ۔ ایک کھڑکی باقی چھوڑی گئی جہاں لوگ دعاکیا کرتے تھے۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو دینِ فطرت کو سمجھے اور جن کی بدولت ہمیں آسانیاں فراہم ہوئیں۔
جدید جہالت:
علم سے محرومی نے جہاں پچھلے دور میں گُل کھلائے۔ وہاں آج بھی ناسمجھوں کو گود کھلا رہی اورحادثے کروارہی ہے۔ علم اور معلومات دو الگ چیزیں ہیں۔ علم میں شعور اور صحیح غلط کی تمیز شامل ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کوئی پی ایچ ڈی سکالر عالم بھی ہو۔ اگر شعور کمزور ہے تو علم کی بنیاد کمزور ہے۔ جس کا لازمی مطلب ہے کہ خرافات نے کہیں نہ کہیں ذہن میں بسیرا کر رکھا ہے۔
ایک صاحب کا پورا گھرانہ پڑھا لکھا ہے۔ لیکن منگل کے دن کوئی کام شروع نہیں کرتے کہ منحوس ہوگا۔ کیا یہ عقل مندی کا تقاضا ہے؟رات کو جھاڑو دینا نحس اور شیشہ دیکھناچہرے پہ جھریاں لانے کا باعث، بدھ والے دن گوشت کا نہ ملنا، دودھ گرنا بد شگن، یورپ میں 13کا عدد نحوست کی علامت ، رکنے والے ان اوقات یا دنوں یا لمحات میں وہ کام کرتے تونہ جانے کتنا فائدہ اٹھا لیتے۔ گھوڑے کا کھردروازے کے ماتھے پہ لگاتے ہیں ، نقصانات نہیں ہوں گے۔ عقل والو :کیا ان چیزوں کی کوئی حیثیت ہے جو انسان جیسی ہستی کو نفع کے حصول سے روک دیں۔
نئی گاڑی پہ کالا کپڑا لگایا جاتا ہے یا گندی جوتی لٹکا دی جاتی ہے ، نظر نہیں لگے گی۔ بچوں اورخوبصورت خواتین کے چہروں پہ یا کانوں کے پیچھے کالا رنگ یا سرمہ اسی مقصد کی خاطر لگا دیا جاتا ہے۔ بھلا پتھر یا گندے جوتے اورکپڑے میں یہ خاصیت کس نے بتائی ؟ کیا ہے اس کا ماخذ؟ کیا بڑے اور ان کے بڑے…؟
نظر لگنا ایک حقیقت ہے ۔ اس کی سائنسی حقیقت بھی واضح ہوئی ہے۔ آسان الفاظ میں کہوں توجب انسان مثبت یا منفی طور پہ کسی چیز پر یکسو ہوجاتا ہے تو اس کی دماغی طاقتیں بھی اکٹھی ہوکے ایک زبردست چارج پیدا کرتی ہیں۔ جب یہ سارے کا سارا چارج کسی انسان پہ گرتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ اسے نظر لگنا کہتے ہیں۔لیکن اس سے بچنے کے طریقے بھی ہر چیز کے خالق کی پناہ میں آجانے کی صورت میں ہمیں شروع میں بتا دیے گئے تھے۔رسول ِ خدا ﷺ نے سکھایا کہ اگر نظر لگ جائے تو کیا علاج کیا جائے۔ یقین کے ساتھ بابرکت دعا سکھائی گئی۔ بسم اللہ اللھم اذھب حرھا وبردھا ووصبھا( اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ آپ اس (نظرِبد )کے گرم و سرد اور دکھ درد کو دور کر دیں۔
کوے کو کیا پتا کہ مہمان نے آناہے۔ دائیں اور بائیں آنکھ کب خوشخبری اور بد خبری کے باعث پھڑکتی ہیں۔ ڈکار نظام ِانہضام یا کسی بیماری کے باعث آتی ہیں ، یاد کون کرتا ہے؟ محمدِ اقدس ﷺ نے اس بے کار ذہنیت پہ ضرب لگائی ’’جس شخص کو کسی بد شگونی نے کوئی کام کرنے سے روک دیا۔ اس نے یقینا شرک کیا‘‘(البخاری)۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ حقیر چیزوں کوجوڑا۔ یہ میرا اللہ ہے جو حالات کو سنوارتا ہے اور انسانی اعمال کے باعث بگاڑتاہے۔ تم کیوں اتنا گر گئے کہ کم ترین چیزیں تم پہ چھا گئیں؟
عرب جاہلیت کے دور میں حام اور صائبہ وغیرہ کچھ اونٹ اور اونٹنیوں کو کہا جاتا تھا۔ جن کا کھانا بعضوں کے لیے حلال اور بعضوں کے لیے حرام ہوتا تھا۔ قرآن ِحکیم نے اس خراب ذہنیت کو درست کیا اور پوچھا کہ ’’کون لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی حلال کو حرام بنالیا ہے‘‘ ۔ زندگی تنگ کرتے ہیں۔ خود کو اور معاشرے کو بندشوں میں جکڑتے ہیں۔ جب ان بندشوں کے باعث دین پہ چلنا مشکل ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس پہ چلنا عام آدمیوں کا کام نہیں۔ صرف اولیا کا کام ہے۔ اس بے وقوف کی طرح جو کہتا ہے کہ چلا نہیں جاتا لیکن برابر اپنے اوپر بوجھ کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ کیا یہ آج کی بات نہیں؟
ہاتھ کی لکیروں میں کب یہ طاقت آگئی کہ انسان کے راستے میں رکاوٹ بننے لگیں؟ سنا ہے کہ سکندرِ اعظم کو کسی نے کہا کہ تمہارے ہاتھوں میں فتح کی لکیر نہیں۔ سکندر نے خنجر سے اپنے ہاتھ پر لکیر کھینچی اور دنیا فتح کرنے نکل کھڑا ہوا۔اقبال نے کہا :
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الہی کا پابند
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح وشام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
برادرم جہانزیب نے اپنے استاد اسلم کمال کا واقعہ سنایا۔ وہ ایک پائے کے نجومی تھے۔ بتانے لگے ۔ ایک روز میرے پاس دو میاں بیوی آئے۔ دونوں میں جھگڑا چل رہا تھا۔ میں دونوں کا ہاتھ دیکھا تو طلاق کی لکیر واضح اور یقینی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ کہ آپ دونوں جو مرضی آئے کر گزریں۔ آپ دونوں میں طلاق نہیں ہوسکتی۔ دو سال بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑی خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ پوچھا، کہنے لگے۔ جب آپ نے ہمیں بتایا کہ طلاق کسی صورت نہیں ہوسکتی تو ہم نے سوچا کہ جب طلاق نہیں ہونی تو کیوں نہ پھر مل جل کے زندگی گزاری جائے۔ اس دن کے بعد سے ہمارے ازدواجی زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔ شعور رکھنے والوں کے لیے کیا کسی اور مثال کی بھی ضرورت ہے۔ اسی لیے ان چیزوں پر یقین کرکے بیٹھ جانے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
کچھ دوست ستاروں کی چالوں پر بھروسہ کر کے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ اقبال نے بر محل تبصرہ کیا:
ستارا کیا تیری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
وہ تو خود ذلیل ہوا بھٹکتا پھرتا ہے۔ کیا ان چیزوں پر یقین رکھنے والے ماڈرن ہیں یا نہ رکھنے والے؟کیسے کیسے فائدے ہیں جن سے یہ محروم رہ جاتے ہیں۔ فقط اس بنا پہ کہ ستارے نے آج گھر سے باہر نکلنے کو خطرناک بتایا ہے۔ یوں نہیں کہ یہ علوم نہیں۔ لیکن ان کو بنانے والا یقین رکھنے کااصل مستحق ہے۔ جو تقدیر بناتا ہے اور بدل بھی سکتا ہے۔ مخلوق کب سے رب اور پروردگار ہوگئی؟
شادی کی توہمات:
آٹے کے چراغ پہ چار بتیاں رکھی جاتیں اور آرتی اتاری جاتی ( چہرے کے گرد پھرایا جاتا) تاکہ بلائیں دور ہو سکیں ۔اس کے ساتھ لوہے کا ڈنڈا رکھا جاتا تاکہ بھوت پریت اس سے ڈریں اوردولھا پہ آسیب اثر نہ کرے ۔ اسے ’بان بیٹھنا ‘ کہتے ہیں۔ایک اور عجیب و غریب چیز ’مروٹ ‘ کہلاتی ہے ۔اس میں دولھا اور دلھن کے چہروں پر لکیریں کھینچ دی جاتیں ہیں تا کہ نئے سفر کا آغاز اچھا ہوسکے۔جب دولھن مایوں بیٹھ جائے تو اسے باہر نہیں نکالتے یا لوہے کی کوئی چیز دے کر نکالتے ہیں کہ کہیں کوئی ہوائی چیز اثر نہ کرجائے۔ دلھن گھر میں آئے تو پہلے دروازے میں تیل یا انڈا ڈالا جاتا ہے تا کہ گھر کی زندگی پرسکون رہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے ہی بیمار دماغوں کے گھر جہنم کدہ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ معمولی معمولی وہموں پر طعن و تشنیع سے گزر کر مارکٹائی تک پہنچتے ہیں اور لطف غارت ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں صفر میں شادی کو تقریبا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ کسی نئے کام کے شروع کرنے میں جھجھکا جاتا ہے۔مردوں کے لیے چنے بانٹے جاتے ہیں تاکہ اس مہینے میں نازل ہونے والی بلائوں سے انہیں محفوظ رکھا جاسکے۔ کچھ اپنے برتن توڑتے ہیں۔ ڈھونڈنے بیٹھا تو خوش قسمتی سے دنیا کے سب سے اعلی دماغ کی ہدایت مل گئی۔ اس دور میں بھی صفر کا توہم موجود تھا۔ مندرجہ بالا ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ملاحظہ کریں۔فرمایا:’’مشیت ِ الہی کے بغیر کوئی بیماری متعدی نہیں۔ نہ ہی بد شگون لینا درست ہے۔ نحوست اور ماہ ِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت نہیں‘‘(سنن ابی دائود)۔اگر کوئی بدشگون لے لے تو کفارہ کی دعا سکھائی : اللھم لاخیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولاالہ غیرک (الہی تیری خیر و برکت کے سوا کوئی خیرو برکت نہیں اور تیرے شگون کے سوا اور کوئی شگون نہیں۔ اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں)۔
تعلیم یافتہ لوگو ،میرے مالک نے کوئی دن، مہینہ اور لمحہ منحوس اور غمزدہ نہیں بنایا۔ یہ دین جسے تم اسلام کے نام سے جانتے ہو ، زندگی کادین ہے۔ غم اور دکھوں کا دین نہیں ۔صفر کے مہینے کی کچھ برکتوں سے دماغ تازہ کیجیے۔
٭مجبور اور مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع میں لڑنے کی اجازت ملی
٭مسلمانوں کی پہلی فتح غزوہئِ ابوا اسی ماہ میں ہوئی
٭فتح ِعراق ہوئی
٭اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت ایران پرفتح حاصل ہوئی
٭مسلمانوں کو دوبارہ عروج و بہبود کا دور عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کی صورت میں عطا ہوا
٭قراردادِ پاکستان منظور ہوئی
٭پاکستان ایٹمی طاقت بنا
اب کون ہے جو پرانی سوچ پہ اڑا رہے گا اور برکتوں کو نہیں اپنائے گا۔
پیدائش پر توہمات:
ہمارے وہمی خاندانوں میں چاند گرہن والی رات حاملہ کی خاص حفاظت کی جاتی ہے۔ پختہ خیال یہ ہے کہ اگر اس نے سوئی والا کام کیا تو بچہ سوئیوں کے نشان والا چہرہ لے کے پیدا ہوگا۔ اگر کوئی چھری کانٹے والا کام کیا تو بچے کا کوئی عضو کٹا ہوا یا ناقص ہوگا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ چاند کی حرکت کے جو اثرات عموماََ زمین پر پڑتے ہیں وہ شکمِ مادر میں موجود بچے پر بھی پڑتے ہوں لیکن اس طرح کی لغویات سے ایک شعور رکھنے والا بس مسکرا اٹھتا ہے۔ وہ مسکراہٹ جس میں افسوس پنہاں ہو۔ نوزائیدہ بچے کے کپڑے نچوڑے نہیں جاتے کہ اس سے معصوم کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ کپڑے کتنے سازشی ہوگئے؟ اگر چارپائی اٹھائی اور اس پہ بچہ موجود ہے تو رکھ کے دونوں حضرات آپس میں ہاتھ ملاتے ہیں۔ بچے کے قریب کوئی لوہے کی چیز رکھتے ہیں تاکہ وہ بلائوں سے محفوظ رہے۔ اگر لڑکا پیدا ہو تو اسے لڑکیوں جیسے فراک پہنائے جاتے ہیں تا کہ نظر نہ لگ جائے۔ ایسا بچہ جسے شروع
ہی سے منافقت کی تعلیم دی جائے توکیوں سمجھتے ہو کہ وہ بڑا ہوکر منافق اور جھوٹ کا نمائندہ نہیں بنے گا؟ منافقت اور جھوٹ نے معاشرے میں جو بے یقینیت اور عدمِ تحفظ پھیلایا ہے ، کیا اس سے آگاہ نہیں ہو؟ بچے کی طرف سے پہلے چالیس دن میں کروٹ نہیں لی جاتی کہ کہیں آسیب اچک نہ لے ، میں اس پہ لاحول ہی پڑھ سکتا ہوں
انتقال پر توہمات:
قدیم ہندوستان میں یہ رسم جاری تھی ، آج بھی کہیں موجود ہے۔ مرنے کے دس دن بعد روح کو اس کا جسم دوبارہ دلوانے کی کوشش کی جاتی۔ اس کے لیے تمام ضروریاتِ زندگی رکھ دی جاتیں۔ میرے ایک دوست اپنے گاؤں سے واپس آئے تو کہنے لگے مردے کے نیچے ایک مکمل کھانا رکھ دیا گیا۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ کھانا فرشتوں کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ سختی نہ کریں۔کیا یہ نہیں جانتے کہ فرشتے رشوت نہیں لیتے؟ مرنے والے کی جگہ دیا جلایا جاتا ہے ۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ روح جسم سے نکل کہ ایک اندھیرے جنگل سے گزرتی ہے۔ اور بغیر دیا جلائے راستہ کیسے ملے گا؟ اللہ کے نبی ﷺ نے دو چیزوں کو سب سے زیادہ آسان بنایا۔ ایک شادی اور دوسری مرگ ۔ ہم نے انہی دونوں کو عذاب بنا ڈالا۔ ایک عام آدمی کے لیے مرنا اور جینا دونوں عذاب۔ ایک دوست بتانے لگے کہ ہمارے گائوں میں قبر پر کانا گاڑا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قبر پھیلنا یا تنگ ہونا رک جاتی ہے، میں پھر مسکرا دیا۔ عدت کے دوران عورت کو بھی گویا دوسرا مردہ بنادیا جاتا ہے۔ اس کے لیے پہننا اوڑھنا ممنوع بنا دیا جاتا ہے ۔ اس سوال کا کیا جواب دیا جائے گا، جو آخر میں ان فرسودہ عقائد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہم ایک دن گفتگو کر رہے تھے کہ یہ فضول سوچیں اور لچھن ہماری زندگیوں سے نکل جائیں تو زندگی کیسی ہلکی پھلکی اور آسان ہوجائے، خوشیوں بھری ہوجائے۔ مسلمان ہونا اور علم نہ ہونا ، پھر اس کے لیے کوشش بھی نہ کرنا، چہ عجب۔ جو بھی پورے یقین کے ساتھ آج ان توہمات سے چھٹکارے کا ارادہ کرے گا۔ اگلے ہی لمحے خود کو ہوائوں میں اڑتا محسوس کرے گا کیونکہ زندگی کا بوجھل پن ختم ہوچکا ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment