بعض محترم دوستوں کو حیرت ہوئی ہے کہ پرویز رشید صاحب کی رخصتی پر مجھے کیوں خوشی ہوئی ہے۔ بعض کو بدگمانیاں بھی لاحق ہوگئی ہیں۔ اس لیے یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
1۔ شریفوں کی کرپشن میرے نزدیک بہت زیادہ سنگین مسئلہ ہے اور وہ جمہوریت کی آڑ لے رہے ہیں لیکن درحقیقت خود جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہی ہیں۔
2۔ شریفوں کا اندازِ حکمرانی مجھے کبھی نہیں بھایا اور میں علی وجہ البصیرت اسے پاکستان کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہوں۔
3۔ پاناما لیکس کے بعد اصولاً شریفوں کو اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے تھا اور خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا لیکن وہ سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں، اقتدار نہیں۔
یہ تو رہے پاناما سے متعلق امور۔
جس معاملے میں پرویز رشید صاحب کی قربانی دی گئی ہے، اس کے متعلق درج ذیل باتوں پر غور کریں :
1۔ میں سیاسی امور میں فوج کی مداخلت کے ناقدین میں سے ہوں اور جاننے والے جانتے ہیں۔
2۔ فوج کو غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے، بلکہ میں اسی کا علمبردار ہوں۔
3۔ اگر میٹنگ میں سیاسی قیادت نے ایسی کوئی بات فوجی افسران سے یا خفیہ اداروں سے کہی تھی تو ٹھیک کیا تھا۔
4۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس میٹنگ کی یہ تفصیلات کسی نے لیک کیوں کیں اور میٹنگ کی منٹس تک صحافی کو کیوں دی گئیں؟ یہاں سے معاملہ قانون کی سنگین خلاف ورزی کی نوعیت کا بن جاتا ہے اور بہت حساس ہوجاتا ہے۔ جس نے بھی یہ کیا تھا اسے فوراً قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دینے کے لیے آگے کردینا چاہیے تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا بلکہ نااہلی اور شراکت جرم کی وجہ سے معاملے کو لٹکانے کی روش اختیار کی۔
5۔ بالآخر چودھری نثار اور شہباز شریف نے آرمی چیف کے پاس جاکر وہ کچھ کیا جو انھیں آرمی چیف کے پاس گئے بغیر بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اب اسے سو پیاز اور سو جوتے نہ کہیں تو کیا کہیں؟
ہر چہ دانا کند، کند ناداں
لیک بعد از خرابیِ بسیار!
تبصرہ لکھیے