آپ نظریں جھکائے بیٹھا کیے
کوئی وارفتگی سے دیکھا کیے
(رابعہ)
اگر تو آپ کے بڑوں نے سمجھایا کہ بیٹا اپنی نظر کی حفاظت کرنا کسی کو تمہاری نظر سے ، تمہارے دیکھنے سے بے آرامی و بے چینی کا احساس نہ ہو. اگر تو اسے عورت کے پردے کی طرح اسلامی شرعی حکم مان کر پورے دل سے اپنایا اور اپنی نظر کا پردہ رکھا تو بہترین قابل ستائش..
لیکن کسی نے آپ کی اس خوبی کی تعریف کی اور کوئی آپ کی جھکی نظروں سے گھائل ہوگیا.. اور اس بات پر آپ کا نفس خوش ہوا، اترایا.. اس اتراہٹ و سر خوشی کو آپ نے مزاح کے لطیف پردے میں لپیٹ کر دوست احباب سے داد وصول کی اور اپنی اس ادا پر مزید قائم ہوگئے تو درحقیقت اب آپ غص بصر نہیں کر رہے بلکہ ”نظریں جھکا کر شکار کر رہے ہیں.“
ایسی جھکی نظر جو آپ کی طرف صنف مخالف کی توجہ مرکوز کروا کر آپ کے نفس کی تسکین کا سامان مہیا کر رہی ہے. . یہ ڈوری میں لگا کانٹا ہے جس سے آپ مزید شکار کر رہے ہیں تاکہ بھوکے نفس کو غذا فراہم کریں. . . یہاں بظاہر بزرگوں کی نصیحت پر عمل اور درحقیقت نفس کی تسکین مطلوب ہے.
سوچیے دھوکا کسے دے رہے ہیں. ”خود کو“
کہ میں تو نظریں جھکا کر بیٹھا ہوں کسی کو دیکھتا نہیں. لیکن کسی کی توجہ حاصل ہونے پر محسوس ہونے والی خوشی آپ کے درست عمل کو غلط کر دیتی ہے. .
”تقوی یہ ہے کہ خود اپنے تقوی کا احساس نہ ہو“
اور یہ ایک مشکل کام ہے . پھر وعدہ بھی تو یہی ہے نا کہ ”مشکل کے بعد آسانی ہے“
غض بصر یہ ہے کہ دوسرے کو متاثر کرنے کی نیت نہ ہو بلکہ اپنی نظر و نفس کی حفاظت پیش نظر ہو.
انما الاعمال بالنیات.
تبصرہ لکھیے